اس وقت پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے اور یہ معاشی بحران سیاسی عدم استحکام کا شاخسانہ ہے ۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے ۔ چند خاندان اور افراد کی دولت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ملک میں فاسد نظام نافذ ہے کیا ہوا ہے ۔ ہر طرف تماشا لگا ہوا ہے روز روز نئے نئے ڈرامے ہوتے ہیں اور عوام اور ملک کو درپیش مسائل پہ کسی کی توجہ نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ عوام میں مایوسی پیدا ہوگئی ہے اور عوام میں غصہ بھی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان پچھلے ادوار میں42ارب ڈالر کے 19معاہدے ہوئے تھے اور ان معاہدوں کو ”گیم چینجر“ سے تعبیر کیا گیا تھا اور یہ بھی دعویٰ کیا کیا گیا تھا کہ چائنا کے تعاون ستے بجلی کے بحران کا خاتمہ کیا جائےگااور اس وقت کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ جاری ترقیاتی منصوبے 2018ءتک مکمل کر لئے جائیں گے جس کے باعث بجلی کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے گا، عام پاکستانی کو ان معاہدوں سے خوشی تھی کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے حکومت خلوص نیت سے کام کر رہی ہے اور پاکستانی عوام کی ہمیشہ دلی خواہش رہی ہے کہ پاکستان مشکلات سے باہر نکلے ۔ مگر امریکہ ہمیشہ پاکستان کی ترقی کیلئے پڑوسی ممالک کے ساتھ معاہدوں کے درمیان رکاوٹ بنتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں ایران کےساتھ معاہدوں کے بارے میں احکامات دئے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کو جن مشکلات سے دوچار کیا گیا ہے وہ ایک دن میں حل نہیں ہو سکتیں، بجلی کے مسئلے کو حل ہونے میں چند سال لگیں گے یہ ایسا مسئلہ نہیں راتوں رات ختم ہو جائے، بجلی بحران پچھلے ستتر برسوں کی غفلت کا نتیجہ ہے اور اسے ٹھیک ہونے میں بھی وقت درکار ہو گا تاہم عوام کو امید تھی کہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے کم از کم بجلی کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گااور یہ کہ چونکہ چائنا پاکستان میں لگ بھگ بیتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر یگا اور ان معاہدوں کی بدولت بجلی کے مسائل کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور پاکستان کے اندر ایک وزیر اعظم کو نکال کر دوسرے کو لا بٹھایا ہمیشہ کی طرح اوریوں ملک میں میوزیکل چیئر چلتی رہی اور ابھی تک یہ سلسلہ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا امریکہ کی خوشنودی کیلئے ہمارا ترقی کا معکوس سفر جاری رہے گا ۔تاہم اب پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ ہمیشہ امریکہ کو خوش رکھے اورپسماندہ رہے،پوری قوم کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی ترقی کیلئے سی پیک اورایران کے ساتھ ترقی کے معاہدوں کی حمایت کریں اور حکمرانوں پر زور ڈالیں کہ پاکستان کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ پاکستان تقدیر کے ساتھ کھیلنے کا وقت نہیں ہے۔مقتدر حلقے اورسیاستدان اپنی مفادات کی سزا پوری قوم کو نہ دیں۔ اگر چہ ایران کے ساتھ بھی توانائی اور گیس کے حوالے سے معاہدے ہوئے مگر چونکہ امریکہ ناراض ہوتا ہے اس لئیے پاکستان نے ناقابل عمل قرار دے دیا ہے۔پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بجا طور پر کہا ہے کہ امریکہ ہمیں پابند کر تا ہے مگر اس کا متبادل نہیں بتاتا۔ُپاک چائنا دوستی کو ہمالیہ سے بلند، شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری قرار دیتے ہیں مگر امریکی سامراج اور ان کے حواریوں کو یہ دوستی گوارا نہیں ہے اور نہ وہ پاکستان کی خود انحصاری گوارا ہے کرتا ہے اور نہ خود کفالت۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچی سمجھی پالیسی یہ ہے کہ پاکستان کو کمزورکیا جائے اور اس کی معیشت کو اپاہج بنایا جائے اس کیلئے وہ مختلف حربے استعمال کرتا ہے ۔ مختلف اداروں میں امریکی اثرات موجود ہیں ۔ اس لئے امریکہ کی ناراضگی مول لینے کا تصور بھی یہاں محال ہے ۔ اگرچائنا کے ساتھ طے ہونےوالے معاہدوں پر عمل درآمد ہو گیا تو پاکستان میں خوشحالی اور ترقی کے دروازے کھل جائینگے اور پاکستانی قوم کو نہ صرف لوشیڈنگ بلکہ بیروزگاری سے بھی نجات مل جائیگی اور ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔ مگر یہ راستہ بہت کھٹن ہے اور پاکستان کا دشمن بڑا عیار ہے اور اس کے پاس عمرو عیار کے چالاکیوں سے بھی بڑا زمبیل ہے اسے پاکستان کی ترقی گوارا نہیں ہے اس لئے وہ پاک چین دوستی سے شدید اضطراب میں مبتلا ہے اور اس کی پاک دشمنی چھپائے نہیں چھپتی۔ اگر چہ مشرف دور میں اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں بھی پاکستان کے چین کیساتھ معاہدات ہوئے اور اس کے بعد میاں نواز شریف کے دورہ چائنا کے موقع پہ بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا چینی فیصلہ ایک منفرد اقدام تھا کیونکہ چائنا نے اس سے پہلے کبھی کسی دوسرے ملک کے ساتھ اس طرح کی سرمایہ کاری کے معاہدے نہیں کئے تھے۔ مگر عالمی سامراج نے ہمیشہ ایسے حالات پیدا کئے کہ ان معاہدات کے نتائج بر آمد نہ ہو سکے۔یہ بھی سنا گیا تھا کہ مشرف دور میں چائنا کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ بھی طے پایا جاچکا ہے کہ پاک چائنا کا دشمن مشترک ہوگا اور اگر پاکستان پر کبھی حملہ ہوا تو وہ چین پر حملہ تصور ہوگا ۔ چین ایک عالمی معاشی قوت بن چکا ہے اور اس نے اپنی اہمیت ثابت کر دی اور عالمی معاشی قوت کے طور پر چین نے جو کامیابیاں حاصلہ کی ہیں کی ہے وہ امریکہ کو کسی طور پر ہضم نہیں ہو سکتی ہیں اور اس کےلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اطمینان سے بیٹھ جائے اور تماشہ کرے اس لیئے اس کی کوشش ہوگی کہ ہر صورت میں پاکستان میں چینی سرمایہ کاری روکے۔چنانچہ امریکہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری رکوانے کےلئے مختلف حربے استعمال کررہا ہے اور بعض مقامات پر امریکہ نے برملا کہا ہے کہ چینی سرمایہ کاری انہیں کو شدید تحفظات ہیں گوادر سے چین تک تجارتی راہداری کے منصوبے پر پر بھی امریکہ کو تکلیف ہے۔اس مطلب ہے کہ جب بھی پاکستان کی ترقی کا کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو امریکہ کے پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہے ایسے حالات میں جو بھی قدم اٹھایا جائے قومی مفاد میں اٹھایا جائے اور عالمی سامراج کے سازشوں کو سمجھا جائے جس طرح پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کو سبوتاژ کیا گیا ہے چائنا کے ساتھ ہونے والے معاہدات کو امریکی اثرات سے بچایا جائے ماضی میں بہت غلطیاں ہوچکی ہیں اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے اور پاکستانی عوام بھی اب باشعور ہوگئے ہیں ان کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ ان کا دشمن کون ہے اور پاکستان میں وہ کونسے عناصر ہیں جن کو امریکی چھتری کی ضرورت ہے۔