کالم

پتوکی سے مانچسٹر تک۔ ایک سفر تمام ہوا

زندگی کا ایک دکھ بھرا لمحہ اُس وقت آیا جب میرے ماموں ابراہیم کے بیٹے مانچسٹر میں مقیم چودھری انورعلی چند روز قبل اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔” حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا”ان کی فتوگی کی اطلاع میرے بڑے بھائی چودھری شوکت علی جومرحوم کے بہنوئی بھی ہیں انہوں نے دی۔وہ ایک نہایت نفیس، بااخلاق اور مددگار انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا طویل حصہ امریکہ اور کینیڈا میں گزرا، مگر ان کا دل ہمیشہ اپنے وطنِ عزیز پاکستان کے ساتھ دھڑکتا رہا۔6فٹ سے نکلتے ہوئے قد کے ساتھ وہ انتہائی متاثر کن شخصیت کے حامل تھے جن کو اردو،پنجابی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور تھا۔وہ جب بات کرتے تھے تو لگتا تھا کہ گویا فصاحت و بلاغت کا نیا باب کھل گیا ہو۔ 74سالہ مرحوم بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔ دوسرے نمبر پر ‘باجی نصرت’ ہیں جو ان سے تین سال چھوٹی ہیں جبکہ سب سے چھوٹے فاروق ارشد چودھری ہیں جن کی عمر 55سال کے لگ بھگ ہے۔انورچودھری ‘مرحوم ‘ کی اہلیہ پروین ہیں اور ان کے دو بیٹے ”زیاد اور ایاز ہیں جو خود بھی Heart Surgeon ہیں۔ اسی طرح فاروق ارشد کے بھی دو بیٹے حارث اورسعود ہیں اوران کی اہلیہ فرحت ہیں۔یاد رہے کہ انور چودھری نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے دوستوں اور کمیونٹی میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی سادہ مزاجی، خلوص اور دوسروں کے لیے دردِ دل رکھنے کی عادت نے سب کے دل جیت لیے تھے۔ ان کی جدائی نے دلوں کو غمگین کر دیا ہے، مگر ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل دے آمین۔ کون نہیں جانتا کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا فانی ہے اور اس کی چمک دمک محض ایک عارضی منظرنامہ ہے۔ انسان جب آنکھ کھولتا ہے تو اپنے اردگرد رنگینیوں، آسائشوں اور خواہشوں کے ہجوم میں گھِر جاتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس گہرا ہوتا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ناپائیدار اور زوال پذیر ہے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کی زیب و زینت میں کھو جاتے ہیں، بالآخر ایک دن اسی حقیقت کے سامنے جھک جاتے ہیں کہ”کل نفس ذائقة الموت”— یعنی ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے حکمران، مالدار اور دانشور بھی وقت کے ہاتھوں مغلوب ہو کر مٹی میں جا سوئے۔مبصرین کے مطابق یہی وہ نقطہ ادراک ہے جو انسان کو حقیقت کے قریب لاتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد مال و دولت یا اقتدار نہیں، بلکہ نیکی، خدمتِ خلق اور آخرت کی تیاری ہے۔اسی تناظر میں اگر ہم روزمرہ زندگی کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انسان نے دنیا کی چمک کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اپنی روحانی تسکین کھو دی ہے۔ ترقی کی دوڑ نے اُسے ایسا مصروف کر دیا ہے کہ سکون و اطمینان اس کے لیے خواب بن کر رہ گیا ہے۔یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ آج اگر کوئی شخص لمحہ بھر کو رُک کر غور کرے تو سمجھ آئے کہ ہر کامیابی، ہر رتبہ اور ہر عیش و عشرت لمحاتی ہے — وقت کے ساتھ سب مٹ جاتا ہے۔سفارتی ماہرین کے بقول اگر یہ اصول ریاستوں اور قوموں پر لاگو کیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئی طاقت ہمیشہ کے لیے غالب نہیں رہتی۔ سلطنتیں عروج پر پہنچ کر زوال کا شکار ہوتی ہیں۔ وہی قانونِ فطرت ہے جو فرد اور قوم دونوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دنیا کی بے ثباتی کا احساس صرف مذہبی یا روحانی زاویہ نہیں رکھتا بلکہ فلسفیانہ اور سائنسی اعتبار سے بھی انسان کے وجود کی ناپائیداری پر غور کیا گیا ہے۔ سقراط، افلاطون، اور مولانا روم جیسے مفکرین نے بارہا کہا کہ زندگی کی حقیقت ظاہری وجود میں نہیں بلکہ اُس شعور میں ہے جو فنا نہیں ہوتا۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ یہی احساس انسان کو عاجزی، رحم دلی اور تقویٰ کی طرف مائل کرتا ہے۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی بے ثباتی کوئی مایوسی نہیں بلکہ ایک پیغام ہے — یہ یاد دہانی ہے کہ زندگی کی اصل منزل مٹی کے نیچے نہیں بلکہ اس کے بعد ہے۔ جو انسان اس حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے، وہ نہ دولت کے زوال سے گھبراتا ہے نہ مقام کے چھن جانے سے۔ وہ اپنے کردار، ایمان اور انسانیت کے سہارے ایک ایسی میراث چھوڑ جاتا ہے جو فنا نہیں ہوتی۔ یہی ابدی کامیابی ہے، اور یہی زندگی کا سچا مفہوم۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے