میں جب نواز شریف کے غیر دانشمندانہ فیصلہ نے انہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا تو فوری طور پر ن لیگ کا رد عمل اتنا جارحانہ نہ تھا کہ پرویز مشرف حکومت کو کوئی پریشانی ہوتی مگر بعد ازاں نواز لیگ نے قائد کی رہائی کےلئے1999 بے جان احتجاج شروع کئے مگر احتجاجی تحریک میں جان اس وقت پڑی جب محترمہ کلثوم نواز میدان عمل میں آئیں۔مکمل گھریلو خاتون کہ جن کا نواز شریف کی سیاست سے کوئی علاقہ نہ تھا نے وفا کی داستان رقم کی۔ سڑکوں پر احتجاج بھی جاری تھا اور پس پردہ مذاکرات بھی.گو کہ اس وقت بھی کئی سیاسی چمپئن انہیں مزاحمت کی راہ پر ڈٹے رہنے کے مشورے دے رہے کہ قائد کی اسیری ایسوں کی امیری ہوتی ہے مگر کلثوم نواز نے حکمت اور تدبر سے کام لیتے ہوئے کڑی شرائط پر نواز شریف کے لیے ملک سے باہر روانگی کی ایسی راہ ہموار کی کہ ساتھ والے سیل میں اسیر لیگی راہنما کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔احتجاج نے تو کام نہ کیا مگر پس پردہ معاملات نے رنگ دکھایا۔منظر بدلتا ہے اور اب کلثوم نواز کی جگہ محترمہ بشری بی بی. چند روز پہلے تک کپتان کی محبت کے اسیر محترمہ بشریٰ بی بی کے سیاسی یا احتجاجی کردار پر بات کرنے کے روادار نہ تھے مگر ایسے بے چاروں پر بجلی اس وقت گری جب محترمہ کی پردے کے پیچھے سے ممبران اسمبلی اور پارٹی قیادت سے خطاب کی خبریں سامنے آئیںگو کہ یہ خطاب کم اور کھلے ڈھکے انداز میں دھمکی زیادہ تھی کہ جسے اراکین کی اکثریت نے محسوس کیا شاید یہی وجہ ہے کہ اراکین اس اہم ترین مرحلہ پر کپتان کی اس فائنل کال پر اس جوش کا اظہار نہیں کر رہے جو ماضی میں نظر آتی رہی۔پی ٹی آئی کے دوستوں کا ایک وصف کہ جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے کہ وہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ زمینی حقائق کا ادراک۔یہ درست کہ بانی پی ٹی آئی نے کئی گمنام چہروں کو معروف کرایا اور ملکی سیاست کی صف اول میں لا کھڑا کر دیا مگر اب یہ حقیقت شدت پسند ورکرز کے علاوہ شاید سب پر عیاں ہو چکی کہ راہنماوں کی اکثریت عمران خان کی مقبولیت کا فائدہ اٹھا رہی ہے. علیمہ خان اسی لیے متفکر جبکہ بشری بی بی نے بھی خان کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا کو کھری کھری سنائیں. دوسری طرف باہر بیٹھے یو ٹیوبرز اور ہمارے ہاں سوشل میڈیا صحافی ہر شام جھوٹے سچے دعوے کر کے نہ صرف خوب پیسے بنا رہے ہیں بلکہ کپتان کی محبت کے اسیروں کو خیالی دنیا سے نکلنے نہیں دیتے۔یو ٹیوبرز صحافی ہوں یا خود غرض سیاست دان سب کو پی ٹی آئی سے غرض ہے اور نہ کپتان سے واسطہ،ان کا حال اس شعر کے مصداق
مل جائیں گے جگہ جگہ فتنہ مزاج لوگ
کوفہ میں ہی فقط نہیں کوفہ مزاج لوگ
اب اگر عمران خان ان چوری کھانے والے مجنووں، سوشل میڈیا پر بلند و بانگ دعوے کرنے والوں اور ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کر مخالفین کی ایسی تیسی پھیرنے والوں سے بڑی تحریک کی اس لگائے بیٹھے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے. کہ مخلص ورکرز کو تو دھوکے پہ دھوکہ ہی مل رہا ہے۔انہیں منزل کا پتہ ہے اور راہبر سامنے ہے نہیںمگر ایک مشکل یہ بھی آج تک کپتان نے بھی وائس چیئرمین و صدر سمیت کسی کو پارٹی امور سونپے اور نہ اظہار اعتماد کیا اور اب تک پی ٹی آئی مخلص سنجیدہ اور سیاسی بصیرت کی حامل قیادت سے محروم ہے۔ شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی سود مند ثابت ہو سکتے تھے مگر پارٹی نے ان کی صلاحیتوں سے نہ فائدہ اٹھایا بلکہ عملی طور پر وہ پارٹی کے رویہ سے بددل ہو کر کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ادھر پارٹی کا سوشل میڈیا موجودہ قیادت کے فیصلہ جات پر حاوی اور یہی وجہ ہے کہ آج تک عمران خان کی رہائی کےلئے نہ ہی سیاسی اور نہ ہی عدالتی محاذ پر کامیابی تو درکنار سنجیدہ کوشش بھی دکھائی نہ دی جس کا اظہار خود سابق خاتون اول، محترمہ علیمہ خان، شیر افضل مروت سمیت کئی راہنما کر چکے. اس وقت جماعت کے اندر طاقت کے حصول کی جو جنگ چل رہی ہے وہ کون جیتتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر مجھے پی ٹی آئی بکھرتی دکھائی دیتی ہے اگر مستقبل قریب میں کپتان کی رہائی ممکن نہ ہوئی تو۔ادھر محترمہ بشریٰ بی بی کا اراکین اور پارٹی قیادت سے خطاب کم اور دھمکی زیادہ کہ جس نے ہال میں بیٹھے ہر فرد کو چونکا دیاکہ اراکین اسمبلی کپتان کے علاوہ کسی اور کی زبانی ایسی گفتگو کے روادار نہ تھے یہی تو وجہ ہے کہ اتنے اہم موقع پر مرکزی قیادت ان سطور کی تحریر تک متحرک، فعال اور سنجیدہ نظر نہیں آ رہی. دوسری طرف ان کے اہم اتحادی محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی سے کنارہ کش نظر آتے ہیں تو سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کی گھن گرج بھی سنائی نہیں دے رہی۔ادھر امریکی اراکین کی کپتان کےلئے پریشانی اور برطانوی رکن پارلیمنٹ کم جانسن کا اس ضمن میں اپنے وزیر خارجہ کو خط بھی معنی خیز. یہ درست کہ سیاسی بنیادوں پر مقدمات عمل قبیح اور یہ مقدمات قائم کرنےوالوں سے لیکر سننے والوں تک کےلئے لمحہ فکریہ کہ بے بنیاد مقدمات قائم کر کے نطام انصاف کا مذاق بنایا جاتا ہے۔مقام حیرت یہ کہ امریکی اراکین ہوں یا برطانوی انہیں آج تک غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی تو نظر نہ آئی اور نہ ہی کشمیر،عراق، افعانستان میںمگر کپتان کےلئے ان کی پریشانی معنی خیز اور انکا یہ عمل پی ٹی آئی مخالفین خدشات کو درست ثابت کرنے کےلئے کافی ہے۔گرچہ کھلاڑی اب بھی Absolutly Not کے سٹکرز گاڑیوں پر لگائے پھرتے ہیں مگر حقیقت یہ کہ کپتان اب بیرونی مداخلت پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں جس کے کل تک وہ مخالف 24 نومبر احتجاج بارے اب کی بار ریاست کے تیور سخت نظر آتے ہیں کہ 24نومبر کو حکومت مظاہرین کو بے قابو ہونے دیگی اور نہ اسلام آباد بند کرنے کی اجازت۔ایپکس کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ پڑھا جاسکتا ہے24 نومبر کا احتجاج اگر قائم رہتا ہے تو اس کی کامیابی بشریٰ بی بی کی مرہون منت کہ مرحومہ کلثوم نواز کی طرح انکی پس پردہ کوششیں رنگ لاتی ہیں یا پردے کے پیچھے سے انکی گھن گرج اثر دکھاتی ہے مگر ہمارا حال تو غالب کے اس شعر کی طرح ہے کہ
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا
کالم
پردے کے پیچھے اور پس پردہ
- by web desk
- نومبر 22, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 181 Views
- 7 مہینے ago