کالم

پردے کے پیچھے چل کیا رہاہے

پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اِس وقت لڑائی شدت اختیار کر چکی ہے ۔ دونوں پارٹیوں کے ذمہ داران کی طرف سے مخالف بیان بازی جاری و ساری ہے۔مریم نواز بھی شعلہ بنی ہوئی ہے تو بلاول بھی کسی آگ سے کم نہیں ہیں اور رہی بات باقی چھوٹے موٹے پارٹی ورکرز اور عہدیداران کی تو وہ اِس سیاسی کھیل تماشے کا وہ بالن ہے جو بُطورایندھن جلنا ہی جلنا ہے اور انہیں آگ میں تپتی بھٹی میں صرف جلانے کے لیے ہی تودونوںا طراف کے صاحب ِاقتدار نے رکھا ہوا ہے۔سُو وہ ٹھنڈی مگر سُلگتی آگ میں اپنا آپ پیش کیے ”کمال” سیاسی کھیل تماشے کو مداری کی ڈُگڈگی پر خوب نچارہے ہیں اور باکس آفس سے ”بہت خوب تماشا” کی دُھول شاباش پا رہے ہیں۔یہ پی پی پی ،ن لیگ تماشابھی کیسا تماشا ہے کہ اِس کھیل میں اب بھی لُٹنا صرف اور صرف پاکستان اور غریب رعایا کا نصیب ہی لکھا ہے۔اِن دونوں پارٹیز کے بڑوں کی تو پانچوں گھی میں ہیں۔لڑ بھی لیں تو نوٹوں کی بارش اور صلح پہ آمادہ ہو جائیں تو بھی اقتدار کی بندر بانٹ۔یہ جوکھیل اِن کے درمیان چل رہا ہے اگرانتہائی باریک بینی سے اِس کا جائزہ لیا جائے تو ایک مداری کھیل تماشہ زیادہ لگتا ہے کہ لڑ یہ رہے ہیں اور جھگڑاکروانے والا کوئی اور ہے ۔یہ لڑائی جو نظر آرہی ہے ایک آپسی نورا کشتی ہے جس کا مقصد سیاسی سطح پر چند دن تک ایک بھونچالی کیفیت پیدا کیے رکھنا اور اِن دوبڑی پارٹیز کے علاوہ ایک اور سیاسی مگر اہم گروپ جو اقتدار پر قابض بھی ہے کی سیاسی راہیں مزید آسان کرنا ہے اور اُسے وزیراعظم پاکستان ، وزیراعلی پنجاب کی کرسی کے منصب پر سوار کروانا ہے جس میں پی ڈی ایم اپنے تمام تر تحفظات و خدشات، رُونے دھونے اور بیان بازی جیسی صورتحال میں کُرسی جاتی ہے توجائے مگراُن کاکرم والاہاتھ چھوٹ نہ جائے، ان کے ساتھ معاون اداکار کے طورپر چل رہی ہے۔اگلی صورتحال کیا بنتی ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ایک سینیٹر صاحب نہیں تو سیاسی دنگل بھی نہیں۔لاہور کے حلقے کاضمنی الیکشن رُوک دیا گیا ہے۔یہ وہی الیکشن ہے جس پر پچھلے دنوں خاصاشورمچا تھا اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے شدیدترین تحفظات و خدشات سامنے آئے تھے اور بعدازاں اے ڈی سی آر سیالکوٹ معاملہ چھیڑ دیا گیا۔یہ معاملہ کیا تھا، ایک لمبی مگر دلچسپ کہانی ہے پھر کبھی سہی۔پارٹی کے بڑوں کے تحفظات و خدشات کے بعد کس کی وزارت عظمیٰ کو خطرہ بتا اور سمجھا کر، وزارت عظمیٰ کنفرم کا تو پتہ نہیں مگر وقتی خطرہ ٹال کر لاہور ضمنی الیکشن رُوک کرکے وزارت عظمیٰ معاملہ آگے لے گئے ہیںجو کہ بہت جلد آخر تو حل ہونا ہی ہے اورکتنی دیر لگا لیں گے۔اِس سیاسی کھیل کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ”چالاک” لیڈروں میں” معصوم ”عہدیداران اِس کھیل کو آگ کی طرح بھڑکا تو رہے ہیں مگر جانتے نہیں ہیں کہ یہ سیاسی کھیل کیسا ہے اور اِس میں موجود ”مہان ”مداروں کی کاسٹ کس قسم کی کہ جن کا منتہائے نظر ہی صرف اقتدار یا اقتدار کی راہداریاں ہیںکیسے برقرار رہتی،یہ ہی سمجھنا ہے اور اگر اِس سیاسی گیم میں اِن کی مکمل بچت ہو جاتی ہے اور مخالف فردبھی سائیڈ لائن رہ جائے تو بات آگے چل سکتی ہے مگر کیا ہے کہ کچھ رازداری مطلوب ہے جس کا خواجہ صاحبان بیڑا بہائے ہوئے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سیاسی گیم کامیاب ہو گئی تو وزارت عظمیٰ کے ”میاں صاحب ”تو گئے۔وقتی ریلیف لاہورضمنی الیکشن ملتوی سے مل گیا ہے دائمی ریلیف تو صدارت کو بھی میسر نہیں ہے ۔ایسے کہہ لیں کہ اگر اِس سیاسی پتلی کھیل تماشہ میں وزارت گئی تو صدارت سے بھی کُوچ کے آرڈربھی وٹ پر پڑے ملیں گے اور پھر راج کرے گی ہمیشگی۔۔۔۔۔جو صدیوں سے پاکستانی عوام کا نصیب ٹھہرا ہے اور حکمرانوں کے رُوپ میں تخت سے گرے ہوئے افراد کے نصیب میں جو ہوگا ،مل ہی جائے گا۔اِن کے جانے کے بعد جو اورنئے افراد آئیں گے وہ اِتنے ہی قابل ہیں جتنے ہمارے پاکستانی کرکٹرکپتان سلمان علی آغا ۔ یاد رہے کہ سیاسی سیٹ اب جیسا بھی بنے ،ہوگا سلمان علی آغا جیسی کارکردگی کا حامل۔اِسے ایک بدقسمتی کہیے یا المیہ ،ملک عزیز پاکستان میں ن لیگ، پی پی پی لڑائی کی صورت میںاگر کچھ نیاکرنا ہواتوپی سی بی جیسا سیٹ اپ لایا جائے گا،جیسے کرکٹ پاکستان تباہ ہوئی، پاکستان کو بھی تباہی سے دوچار کیا جائے گااور موجودہ پی پی پی ،ن لیگ لڑائی کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہے ۔ جب کوئی بھی سیاسی سیٹ اپ تبدیل کرنا مقصودہو تو ایسے ہی معاملات اور حالات خراب کیے جاتے ہیں اور دوسروں کے آنے کا جواز بنایا جاتاہے ۔موجودہ حکومت کے بڑوں کو کیا سمجھاؤں جیسی سیاسی گیم چل رہی ہے اِن کی اِس گریٹ گیم میں شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔فائدہ کس کو عزیز نہیں ہوتاہے۔ اِن کو بھی اِن کا عارضی فائدہ ہی وزارت اور صدارت سے اُتار دے یا یہ خود ہی اِس سے دوسرے کے حق میں بہتر سمجھتے دستبردار ہو جائیں۔ سیاست میں کچھ بھی بعید نہیں، سب چلتا ہے ۔یہ تو پھر کوئی خاص بات نہیں ہے۔اِس ملک میں اکثر ہوتا آیا ہے اور حیثیتیں بدلتی رہتی ہیں۔کل کا باس آج کا ماتحت اور اورکل کا نوکر آج کاباس بن جائے ۔کچھ تو ایسا ہے کہ جس کی پردہ داری ہے ۔ لاہور الیکشن رُوکنا اور باقی کا ضمنی الیکشن کروانا کچھ تو دال میں کالا ہے۔کہیں پاکستانی سیاست میں وزارت اور صدارت بدلنے کاکہیں فیصلہ تو نہیں ہو گیا۔مخصوص نشستوں سے لے کر نو مئی کے متنازعہ فیصلوں تک ۔ آپریشن بنیان الموصوص سے لے کر پاکستان سعودی عرب سیکیورٹی معائدہ تک ۔ٹرمپ 20 نکاتی غزہ امن معاہدے سے لے کر امریکہ کے پاکستان کو اپنے میزائل پروگرام میں حیران کن شمولیت عطاکرنے تک ۔ خیبر پختون خواہ سے لے کر بلوچستان تک۔آزاد کشمیر سے لے کر گلگت بلتستان تک ۔ حتی کہ ملکی ہر چیز تک داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ خیبر پختون میں علی امین گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ کی کرسی سے استعفیٰ کے بعدسہیل آفریدی کی وزارت اعلیٰ پر تعیناتی اور یہ اچانک، عجب بدلاؤ فیصلہ ۔۔۔کہیں وہاں کچھ انہونا تو نہیں ہونے جارہاہے۔ سہیل آفریدی وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ بن تو گئے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے خدا خیر کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے