کالم

پشتونوں کے اصل دشمن کون۔۔!

یہ حقیقت غالباکسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جنوبی وزیرستان میں مفتی کفایت اللہ کے حالیہ بیانات محض ایک سیاسی نعرہ بازی نہیں بلکہ پاکستان کے آئین، اسکی شہادتوں اور بالخصوص پشتونوں کی وحدت کیخلاف کھلی سازش ہیںجسکا سیدھا سادہ مقصد پاکستان کی قومی سلامتی اور وحدت کو نقصان پہنچانا ہے۔تفصیل اس سارے معاملے کی کچھ یوں ہے کہ مفتی کفایت اللہ نے نام نہاد شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور ان دہشت گردوں کو’شہید قر ار دیا جو پاک فوج اور پاکستانی عوام کیخلاف ہتھیار اٹھا کر معصوم جانوں کے قاتل بنے۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہے کہ وہ کون سی شریعت چاہتے ہیں؟ پاکستان کا آئین پہلے ہی اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میںوفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل اور پیغامِ پاکستان کا متفقہ فتویٰ اس بات کو دو ٹوک انداز میں واضح کر چکے ہیں۔ اسکے باوجود اگر کوئی دہشتگردوں کی مسلط کردہ شریعت کی بات کرتا ہے تو اسکا مطلب صرف اور صرف فتنہ و فساد ہے۔یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ طالبان اور فتنہ الخوارج نے جس نام نہاد شریعت کے ذریعے پشتون بیٹیوں کے اسکول جلائے،مساجد اور بازار اڑائے، جرگوں میں بزرگوں کو شہید کیا اور آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو خون میں نہلایا، وہ کسی طور شریعت نہیں بلکہ’فساد فی الارض ہے۔ پیغامِ پاکستان جس پر تمام مکاتب فکر کے 1800 سے زائد علما نے دستخط کیے، اسی سوچ کو خوارج قرار دیتا ہے اور اسے حرام قرار دیتا ہے۔ اسکے برعکس شہادت کا درجہ ان لوگوں کو حاصل ہے جو اسلام، پاکستان اور بے گناہ جانوں کے دفاع میں قربانی دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کو شہید کہنا ان 94 ہزار پاکستانی شہدا کی توہین ہے جنہوں نے ملک کی سلامتی کیلئے جان دی۔ یہ ان اے پی ایس ماؤں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جنہوں نے اپنے جگر گوشے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے دیکھے۔اس خطر ناک سوچ کو ہوا دینے میں پشتون نیشنل جرگہ (PNJ) اور پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کا کردار بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔پی این جے نے مفتی کفایت اللہ جیسے شخص کو اسٹیج دیا اور بعد میں انکے بیانات کو ذاتی رائے قرار دے کر بری الذمہ بننے کی ناکام کوشش کی، اگر یہ صرف ذاتی رائے تھی تو اسے پلیٹ فارم کیوں دیا گیا ؟ یہی منافقت دراصل پی این جے کا اصل چہرہ ہے جو ایک طرف انتہا پسندوں کو آواز دیتا ہے اور دوسری طرف بے گناہی کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ برکت آفریدی کا یہ دوغلا پن اسی ڈبل گیم کی علامت ہے جس میں انتہا پسندانہ بیانیے کو جگہ دے کر پھراظہارِ رائے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ یہی انداز پی ٹی ایم بھی اپناتی ہے۔ عمر پشتین نے مفتی کفایت اللہ کے دفاع میں اسے پشتونوں کے حقوق کا علَم بردار قرار دیا اور’شریعت’ کے مطالبے کو عوامی خواہش بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔یہ دراصل دہشتگردوں کے بیانیے کو سیاسی رنگ دینے کی مکروہ کوشش ہے۔مبصرین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ ایف اے کے اور ٹی ٹی پی کوئی آزادی کے متوالے نہیں بلکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ دہشتگرد تنظیمیں ہیں جو غیر ملکی ایجنسیوں کے آلہ کار ہیں۔ وہ پشتون شناخت کا سہارا لے کر پشتونوں ہی کو قتل کرتے ہیں،انکے دیہات اجاڑتے ہیں اور ترقی کی راہیں مسدود کرتے ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اسی تناظر میں سچ تو یہ ہے کہ پشتونوں کے حقیقی محافظ پاکستان کے ادارے اور فوج ہیں۔ آپریشن راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد کی قربانیوں کے نتیجے میں وزیرستان دہشت گردوں کے گڑھ سے امن و ترقی کے راستے پر آیا اورآج انہی قربانیوں کے باعث وہاں سڑکیں، اسکول، ہسپتال اور بازار دوبارہ آباد ہو رہے ہیں۔ اگر یہ آپریشنز نہ ہوتے تو آج بھی وہ خطہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کا مرکز ہوتا۔کسے معلوم نہیں کہ پشتونوں کی عزت، حقوق اور مستقبل کا راستہ پاکستان کے آئین، ترقی اور وحدت میں ہے نہ کہ مفتی کفایت اللہ، پی ٹی ایم اور پی این جے کے خونریز نعروں میں۔ جو لوگ قاتلوں کو شہید کہتے ہیں وہ پشتونوں کے خیر خواہ نہیں، بلکہ دہشتگردوں کے بیانیے کو سہارا دینے والے ہیں۔ پاکستان کے 94 ہزار شہدا کی قربانیوں کا تقاضا ہے کہ ایسے فتنے کو پہچانا جائے ۔ ایسے میں ہر پاکستانی اور سول سوسائٹی کا فرض اولین ہے کہ پاک فوج کے شانہ بشانہ شامل ہو کران فسادیوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے