کالم

پلڑے آخر برابر ہو گئے؟

گزشتہ ہفتے منگل کے روز سپیشل سائفر کورٹ سے سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس دس سال بامشقت کےساتھ ہی اس اپنی مثال آپ اور انوکھے سائفر کیس کا ڈراپ سین ہو گیا۔ اگلے ہی روز اسی تیز رفتاری سے توشہ خانہ نیب کیس میں بھی بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ بشری بی بی کو چودہ چودہ سال قید بامشقت ، کسی بھی عوامی عہدے کیلئے دس دس سال کی نااہلی کے علاہ اربوں روپے جرمانہ کر کے بقول عام آدمی لندن پلان پرمکمل طور پر عملدرآمد کرا دیا گیا۔ ان فیصلوں کو تاریخ اور دنیا کیسے دیکھے گی یہ تو بعد کی بات ہے لیکن اسکے کرنےوالے اتنے بے خبر ہیں کہ وہ یہ سب کچھ کروانے سے پہلے اس ہر تو غور کر لیتے کہ کل جو شخص طیارہ سازش کیس میں چودہ سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھجوایا گیا تھا، جسے اقامہ میں نااہلی اور نہ جانے کون کونسی سزائیں سنائی گئی تھیں، وہ آج کہاں کھڑا ہے۔ ظاہر ہے جب وقت کا پہیہ گھومتا ہے تو سب کچھ بلاآخر ٹھیک ٹھاک ہو جاتا ہے، دشمن سجن اور سجن دشمن بن جاتے ہیں اور یہ وقت کی رفتار یا وقت کا بدلنا کسی انسان کے بس میں نہیں صرف مالک کل کائنات کی قدرت میں ہے۔ وہی غم اور وہی خوشی دیتا ہے۔ وقت برے بھی آتے اور اچھے بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ عمران خان کو سنائی گئی یہ دس سال یا چودہ سال سے سزائیں کچھ اور بھی ہو سکتی تھی۔ بحرحال یہ تو سب کو پتہ تھا جس تیز رفتاری سے انصاف کو چلایا جا رہا ہے، الیکشن سے پہلے پہلے ان لوگوں نے عمران خان کو نااہل اور دیگر سزائیں دلوا کر ہی چھوڑنا تھا کیونکہ جونہی ن لیگ کے رابطے بحال ہوئے تھے اسی روز سے یہ سارے دعوی کرنے لگ گئے تھے کہ سب کچھ اسی طرح اب دہرایا جائے گا۔ پی ٹی آئی کو تتر بتر کر دیا گیا، بانی لیڈر ایاک نعبد و ایاک نستعین کے ورد کرنے والے کو کیسے ہاتھ پاو¿ں باندھ کر زندان میں ڈال دیا گیا، لیکن انکو اتنی بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں سب وقتی ہے ۔ سائفر ہو یا توشہ خانہ، سچ پوچھیں تو یہ وہ مقدمات ہیں جن کا نہ سر ہے نہ پیر، اگر ملزم کو صحیح معنوں میں فئیر ٹرائل کا حق دیا جاتا تو یہ دونوں مقدمات پھر سے ہوا میں اڑ چکے ہوتے، لیکن رات دن عدالتیں لگا کر 8فروری سے پہلے پہلے عمران خان کو بک کرنا تھا سو کر دیا گیا۔ آج جگہ جگہ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے پاور شوز کر رہے ہیں، ٹی وی سکرینز پر چار چار پانچ پانچ ٹکڑوں میں جلسے دکھا رہے ہیں لیکن اگر کوئی نظر نہیں آتا تو وہ صرف عمران خان ہے، لیکن تمام کے تمام سروے بتاتے ہیں کہ اگر اس ملک میں جیل کے اندر رہ کر بھی سب سے مقبول لیڈر اگر کوئی ہے تو وہ صرف عمران خان ہے۔ اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں تمام مقتدر ادارے صرف خوف زدہ ہیں تو صرف عمران خان سے۔ انہیں ایک ان دیکھا خوف محسوس ہوتا ہے کہ خان پھر کہیں دوبارہ سے نہ آ جائے۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ میاں اظہر 82 سال کے بزرگ کو پولیس زبردستی اٹھا کر لے گئی ، چوہدری پرویز الہٰی پابند سلاسل ہے، متعدد خواتین جیلوں میں ہیں ۔ایک تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے انہیں مروایا،جو کرنا تھا وہ نہیں کیا اور جو نہ کرنا تھا وہ کیا۔ یہ تاثر سو فیصد لغو بے بنیاد اور غلط ہے، ایک عام سا وکیل بھی سب سے زیادہ اپنے بریف اور اپنے کلائنٹ کا خیر خواہ ہوتا ہے، وہ رات دن محنت کرتا، مثبت منفی پہلوو¿ں پر غور اور قدم قدم پر نت نئی حکمت عملیاں ترتیب دیتا رہتا ہے جو کل کو اسکے موکل کے حق میں بہتر ثابت ہوں، بعض اوقات اسے جج کی جانبداری پر بھی شک ہوتا ہے اور وہ چند ایک تاریخوں پر جان بوجھ کر کاروائی میں شرکت سے اجتناب بھی کرتا ہے اور سب سے بڑی خوشی کسی کیس کو جیت کر اس وکیل کو ہوتی ہے جتنی شاید اسکے کلائنٹ کو بھی نہ ہو کیونکہ نہ صرف اس نے مخالف فریق کو پچھاڑا ہوتا ہے بلکہ عدالت کو بھی اپنی ذہانت اور بصیرت سے مطمئن کیا ہوتا ہے اور اس نے کسی کو اسکا حق دلوانا بھی کسی پروفیشنل وکیل کیلئے باعث فخر ہوتا ہے۔ اس کیس میں بھی قدم قدم پر لیگل ٹیم کو یہ سارے چیلنجز درپیش تھے۔ ایسی تیز رفتاری اور اتنی عجلت دکھائی جا رہی تھی کہ کوئی بھی نہیں چاھتا تھا کہ اس کے کلائنٹ کا کوئی نقصان ہو، اسی لیئے پھونک پھونک کر قدم رکھے جا رہے تھے لیکن جنہوں نے جو کرنا تھا وہ کر دیا ، اب کورٹ آف اپیل جانے اور اپیل کنندہ۔ لیکن بطور پریکٹسنگ وکیل مجھے یقین ہے کہ وہاں جب ان زیادتیوں اور حقائق کو سامنے لایا جائیگا تو یہ فیصلہ نہ صرف ہوا میں اڑ جائے گا بلکہ اس پر معزز عدالت اپیل کے بھی کچھ مخصوص ریمارکس بھی سامنے آئیں گے۔مجھے یاد ہے بھٹو صاحب کی سزائے موت کا ذمہ دار بھی اس وقت کے دانشور انکے وکیل صفائی یحییٰ بختیار پر ڈالتے رہے لیکن ظلم و جبر کے اس دور کو وہ لوگ بھول جاتے ہیں جب اس وقت کے ڈکٹیٹر نے کہا تھا، قبر صرف ایک ہے، اسمیں بھٹو جائے گا یا وہ خود۔ ان حالات میں ایک پھر وکیل کیا کر سکتا ہے فیصلہ تو پھر انہوں نے لکھنا لکھوانا ہوتا ہے جن کے ہاتھوں میں اختیار ہوتا ہے۔ بحرطوراس تمام صورتحال میں جو کچھ ہو رہا ہے انتہائی قابل مذمت ہے، ہر ادارہ تباہ اور ہر شہری کو ایک دوسرے سے دست و گریبان کر دیا گیا ہے، کسی کو کسی پر اعتبار ہی نہیں رہا، حسن نثار بالکل ٹھیک کہتا ہے، اس نظام کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے وگرنہ یہ قیامت تک سیدھے راستے پر چل نہ پائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے