پنجاب اسمبلی میں گزشتہ روز ن لیگ اور اتحادیوں کے 215ارکان اسمبلی نے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے 97ارکان اسمبلی نے حلف اٹھالیا۔ ایوان میں اکثریت رکھنے والی جماعت کے اراکین کو اسپیکر کے دائیں جانب جبکہ کم تعداد والی جماعت کے اراکین کو بائیں جانب کی نشستیں الاٹ کی گئیں۔ اجلاس شروع ہوا تو ن لیگ اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان میں تلخ کلامی ہوئی ایک دوسرے کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے مینڈیٹ چور کے نعرے لگائے جسکے جواب میں لیگی ارکان گھڑی چور کے نعرے لگاتے رہے۔ ن لیگ کے اراکین نعرے بازی کے دوران گھڑیاں بھی لہراتے رہے۔ نامزد وزیرِ اعلی پنجاب مریم نواز بھی ایوان میں موجود تھیں جنہوں نے بطور رکنِ پنجاب اسمبلی حلف اٹھایا۔ ن لیگ کی نامزد وزیراعلیٰ مریم نواز حلف اٹھانے کیلئے اسمبلی ہال پہنچیں تو اراکین نے شیر شیر کے نعرے لگائے جبکہ لیگی ارکان نواز شریف کی تصاویر لیکر ایوان پہنچے۔ اسپیکر کے لئے مسلم لیگ (ن)کے حمایت یافتہ امیدوار ملک محمد احمد خان اور سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر اورڈپٹی اسپیکر کے لئے ن لیگ کے ظہیر اقبال چنڑ اور سنی اتحاد کونسل کے معین ریاض قریشی کے درمیان مقابلہ ہوگا ،سنی اتحاد کونسل کے ارکان کا کہنا تھا کہ ہمارے ارکان کو اندر نہیں آنے دیا جارہا ہراساں کیا جارہا ۔سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے اسپیکر سبطین خان سے گفتگو کی کوشش کی تو انہوں نے انہیں بات کرنے سے روکدیا اور کہا کہ ابھی آپ نے حلف نہیں اٹھایا، ابھی آپ ممبر نہیں بنے ہیں، حلف لے لیں پھر آپ سب کی بات سنیں گے۔اسپیکر سبطین خان نے کہا کہ ریزرو سیٹس الیکشن کمیشن نے رکھی ہوئی ہیں، ان کا فیصلہ ہونا ہے، ہم کتنے دن تک ایوان کو روک سکتے ہیں، حلف کا ہونا ضروری ہے اسکے بعد جو مرضی کریں۔نو منتخب رکن رانا شہباز نے کہا کہ اسپیکر صاحب! ہم نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی ، ہمیں ہراساں کیا جارہا ہے۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نو منتخب رکنِ پنجاب اسمبلی عامر ڈوگر کا کہنا کہ بلے کے بغیر پنجاب اسمبلی کی 170 سیٹیں ہیں۔ رکن سنی اتحاد کونسل رانا آفتاب نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو اندر آنے نہیں دیا گیا، مخصوص جماعت کے لوگ مہمانوں کی گیلری میں بٹھا دیے گئے ہیں۔اسپیکر سبطین خان نے کہا کہ رانا صاحب! آپ اپنے مہمانوں کی لسٹ دیں میں ان کو اندر بلاوں گا، میاں اسلم اقبال کی رپورٹ منگواتا ہوں، وہ گرفتار ہیں تو ان کے پروڈکشن آڈر جاری کروں گا۔میڈیا سے گفتگو میں مریم نواز نے کہا کہ اللہ کرے پنجاب کیلئے خدمت کا نیا دور شروع ہو۔افراتفری کی سیاست کسی کے مفاد میں نہیں ہے جس حکومت کو بھی مینڈیٹ ملا ہے اسے حکومت کرنے کاحق ہے ۔ سیاسی قیادتوں کو شراکت اقتدار کیلئے جوڑ توڑ کے ساتھ ساتھ اس معاملہ میں بھی سنجیدہ غور و فکر کرنی چاہیے کہ انہوں نے درپیش اقتصادی حالات میں مرے کو مارے شاہ مدار کی تصویر بنے عوام کو انکے غربت مہنگائی بے روزگاری کے مسائل میں خاطرخواہ ریلیف کے ذریعے کیسے مطمئن کرنا ہے۔ اس کیلئے کیا عملی اقدامات بروئے کار لانے ہیں اور انہیں کن پالیسیوں کے تحت عملی جامہ پہنانا ہے۔ جوڑ توڑ کی بنیاد پر وہ اقتدار کی منزل سے تو ہمکنار ہو سکتے ہیں مگر عوام کا اعتماد حاصل کرکے اس اقتدار کو برقرار رکھنا ہی اصل کام ہے جو عوام کو انکے روزمرہ کے مسائل میں مستقل ریلیف دینے کی ٹھوس پالیسیاں وضع کرنے کا متقاضی ہے۔ فی الوقت تو نگران حکومت نے پٹرولیم مصنوعات بجلی گیس پانی اور ادویات کے شتربے مہار انداز میں نرخ بڑھاتے بڑھاتے نئے حکمرانوں کے راستے میں اقتدار سنبھانے سے پہلے ہی عوامی اضطراب کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں۔تمام سیاسی قیادتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور باہمی کھینچا تانی میں سسٹم کی بنیادیں ہلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر انہوں نے بعد میں بحال جمہوریت کیلئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونا اور کٹھنائیوں والی مشترکہ طویل جدوجہد کرنی ہے تو ابھی سے خود کو بلیم گیم سے باہر نکال کر سلطانی جمہور کو مستحکم بنانے پر اتفاق کرلیں تاکہ سسٹم کی بساط لپیٹے جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاگئے
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی خوشحالی یقینی بنانے اور ملکی معیشت کو مستحکم رکھنے کےلئے نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے، جب تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے۔پریس بریفنگ کے دوران آئی ایم ایف میں کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ جولی کوزیک سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ کیا پاکستان جون 2023 میں طے پانے والے اسٹینڈ بائی معاہدے کی تیسری قسط کو حاصل کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا آئی ایم ایف عمران خان کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے کسی خط کو قبول کرے گا؟اپنے جواب میں جولی کوزیک نے کہا کہ 11 جنوری کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے کی منظوری دی تھی، جس سے مجموعی طور پر 1.9 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت کے دور میں حکام نے معاشی استحکام کو برقرار رکھا۔جب ان سے عمران خان کے ممکنہ خط پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ملک میں جاری سیاسی پیش رفت پر تبصرہ نہیں کروں گی، اس لیے میرے پاس اس حوالے سے کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وزارت خزانہ نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کیلئے اہم اہداف طے کرلیے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ نیا پروگرام 6 ارب ڈالر کا ہوگاجس کی مدت 3 سال ہوگی، نئے پرواگرام کیلئے وزارت خزانہ اور ایف بی آر حکام مسلسل رابطے میں ہیں۔ایف بی آر ٹیکس ٹو جی ڈی پی 3 سال میں 15 فیصد تک بڑھانے کا ہدف ہوگا، مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر 3 ماہ کے درآمدی بل کے برابر رکھنے کا ہدف ہوگا جبکہ کرنٹ اکانٹ خسارے میں کمی اور پرائمری بیلنس سرپلس رکھنے کا ہدف بھی طے کیا گیا ہے۔ آئندہ بجٹ میں سبسڈی کا تعین بھی نئے قرض پروگرام کی شرط کے مطابق ہوگا اور آئندہ سال بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بنایا جائےگا، نگران حکومت نے نئی حکومت کیلئے معاشی روڈ میپ اور قرض پروگرام کیلئے ورکنگ تیارکی ہے، موجودہ قرض پروگرام ختم ہونے کے ساتھ آئی ایم ایف سے نیا قرض معاہدہ سائن ہوگا، قرض معاہدے سے قبل آئی ایم ایف کو شرائط پرعملدرآمد کیلئے یقین دہانی کرائی جائےگی۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے مفاد میں
نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس ہواجس میں ایران سے گیس درآمد کے لیے ایران سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی، پاکستان کے اندر 80 کلو میٹر گیس پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کیا جائے گا۔پائپ لائن گوادر سے ایران سرحد تک تعمیر ہوگی، کابینہ کمیٹی نے وزیراعظم کی ستمبر 2023 میں قائم وزارتی کمیٹی نے سفارشات کی منظوری دی۔پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ انٹراسٹیٹ گیس سسٹم کے ذریعے مکمل کیا جائے گا، گیس پائپ لائن بچھانے کےلئے فنڈ گیس انفرااسٹراکچر ڈویلپمنٹ سیس سے لیے جائیں گے۔ ایران 18 ارب ڈالر جرمانے کا نوٹس واپس لے گا، پائپ لائن بچھانے سے پاکستان 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی سے بچ جائے گا، ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس انتہائی سستی ملے گی، ایران سے گیس خریدنے کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 5 ارب ڈالر سے زائد بچت ہوگی۔پاکستان امریکا سے آئی پی منصوبے پر پابندیوں سے استثنیٰ بھی مانگے گا۔ ایران ترکی، عراق اور آذربائیجان کےساتھ گیس کی خرید و فروخت کر رہا ہے جس پر پابندیاں لاگو نہیں، ایرانی بارڈر سے گوادر تک پائپ لائن کی تعمیر پر 45 ارب روپے لاگت آئے گی۔
اداریہ
کالم
پنجاب اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھالیا
- by web desk
- فروری 25, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 691 Views
- 1 سال ago