کالم

پنجاب سیاسی بحران کی زد میں؟حقیقت

افتخار عارف نے کیا خو ب کہا
کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی ہی نہیں، شام ہوئی جاتی ہے
گجرات کے جاٹ چودھری کا بھی یہی حال ہے کہ ابھی اقتدار کی صبح ٹھیک سے ہوئی نہیں کہ تاریک شب نے آلیا۔گورنر کی ہدایت کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب کا اعتماد کا ووٹ نہ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس نمبر پورے نہ تھے۔صوبائی ایوان کا اعتماد انہیں حاصل ہوتا تو وہ یوں سر بازار تماشا نہ بنتے۔پرویز الہی اور عمران خان نے جان بوجھ کر پنجاب کو ایک سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے۔خاکم بدہن!یہ بحران آگے چل کر کسی طوفان کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پرویز الہی دہرے عذاب میں گھرے ہیں،ایک جانب عمران خان کی تلون مزاجی ہے جو پل پل تولہ اور پل پل ماشہ ہوتے ہیں۔دوسری طرف پرویز الہی نواز شریف کا اعتماد کھو چکے جس کی وجہ سے پی ڈی ایم اب انہیں وزیر اعلی قبول نہیں کر رہی۔عمران خان کی تلون مزاجی اور پرویز الہی کی حب جاہ نے پنجاب کاپٹڑہ کر دیا۔حد ہو گئی پنجاب اسمبلی کے سپیکر سبطین خان نے گورنر کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے الٹا صدر مملکت کو گورنر کو ہٹانے کے لیے خط لکھ مارا۔سپیکر کے یتیم سے خط کی آئینی و قانونی پوزیشن سے قطع نظر ان سے پوچھنا چاہیے کہ حضور:جو منصب دار کسی عہدے پر تقرری نہ کر سکتا ہو وہ اسے برطرف کرنے یا ہٹانے کا اختیار کیسے رکھتا ہے؟قانونی ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں سپیکر پنجاب اسمبلی کا بذات خود اقدام غیر قانونی ہے۔اب اگر گورنر کوئی اقدام کریں گے تو پنجاب کی سیاسی اور حکومتی صورتحال مزید بگاڑ کی جانب جائے گی۔کہنے والوں نے کہا کہ تیر کمان سے نکل چکا اور پنجاب میں کالے بادل اب برسے بغیر نہ ٹلیں گے۔ گماں گزرتا ہے اب معاملہ عدالت میں جائے گا اور یہیں سے فیصل ہو رہے گا۔یہ الگ بات کہ پرویز الہی کو تخت پر بٹھایا بھی عدالت عالیہ نے تھا۔وفاق بھی اس معاملے میں مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔رینجزز یا ایف سی کی تعیناتی یا پھر گورنر راج کے معاملات اپنی جگہ لیکن اب وفاقی حکومت کو جوش نہیں ہوش،طیش نہیں تحمل اور نرم دلی دلی نہیں جانفشانی سے کام لینا ہو گا۔گورنر نے تاحال سپیکر کی رولنگ پراعتدال کا دامن نہیں چھوڑا کہ انہیں یہی زیبا ہے۔اصولی اور منطقی طور پر تو سپیکر کو غیر جانبدار ہو کر گورنر کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے تھا۔
سبطین خان نے لیکن اسد قیصر والا کردار ہی اپنے لیے چنا جس وجہ سے پنجاب کو آگ کے الا¶ میں جھونک دیا گیا۔عمران خان تو ویسے بھی یہی چاہتے ہیں کہ چہار سو شعلے بھڑکتے رہیں اور انتقام کے کوئلے سلگتے رہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کی اس ضمن میں بردبار خاموشی اور حالات کا گہرائی سے جائزہ لینے کی نیت پھر بھی صورتحال کو سنبھال رہی ہے دوسرا فریق مگر ایڑھیاں اٹھا اٹھا اور گلہ پھاڑ پھاڑ کر مبارزت کی دعوت دے رہا ہے۔فواد چودھری،فیاض چوہان،عمرسرفراز چیمہ اور اس قبیل کے دوسرے لوگ مگر امن و چین نہیں چاہتے۔پنجاب کی تحریک عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ پر تحریک انصاف نے جو رویہ اپنایا اور جو کھیل کھیلا وہ ہرگز ہرگز پارلیمانی نہیں۔اب پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ شاید کلچر کی تبدیلی کی بھی ضرورت آن پڑی ہے۔یقینا وزیراعظم شہباز شریف، نواز شریف، آصف زرداری، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان بھی اس ضمن میں سوچ بچار کر رہے ہونگے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم پنجاب کے اس سیاسی بحران کو ختم کیسے کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri