کالم

پندرہ دسمبر۔۔۔ چائے کا عالمی دن !

ہر سال پندرہ دسمبر کو چائے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ چائے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ چائے ہردل عزیز مشروب ہے اور بے ضرر بھی ہے اور انتہائی غیر متنازعہ مشروب بھی ہے۔ اسی وجہ عالمی سطح پر پورا ایک دن چائے کے نام پر کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ چائے دنیا میں کتنی مقبول ہے۔ چائے وہ مشروب ہے جس سے ہم اپنی صبح کا آغاز کر تے ہیںاور دن کے اختتام تک چائے ہما ری محفلوںاور مجلسوں کو رونق بخشتا ہے گھر، دفتر، مدارس، تجارتی مراکز،شاید ہی ایسی کوئی جگہ ہوجہاں چائے نہ پلائی جاتی ہودانشوروں کے مفکرانہ مذاکرے ہوں،بذرگوں کی سنجیدہ محفلیں ہو ں یادوستوں میں شوخ مجالس چائے ہر تقریب اور مجلس کی جذلا ینفک ہے ۔بر صغیر کے ایک عظیم سیاست دان مولانا ابوالکلام بھی چائے کے شیدائی تھے ان کا کہنا ہے کہ چائے میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے ”لبریز ہو، لب سوز ہو اور لب دوز ہو“ اسی طرح”غبار خاطر میں انہوںنے لکھا کہ چائے کہ معاملے میں میں خوبان چین کا قائل ہوں ہم لوگ تو سیال حلواہ بنا کر کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ جنرل ضیاءکے مارشل لادور میں جب سیاسی پارٹیاں پس منظر میں چلی گئی تھیں اس دوران ایک غیر سیاسی جماعت,,چائے چھوڑپارٹی،،کا قیام عمل میں لایا گیاتھا عوام کی طرف اس پارٹی کو اچھی خاصی پزیرائی مل رہی تھی اور اس وقت کا میڈیا بھی اس کو ریج دینے میں بخل سے کام نہیں لے رہا تھا کچھ عرصہ تک اخبارات کے صفہ اوّل کی سرخیاں اس پارٹی کیلئے وقف ہو کر رہ گئی تھیں مگر رفتہ رفتہ یہ پارٹی معدوم ہوگئی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ان اس کی سرپرستی کرنی چھوڑدی تھی یہاں نکتہ دانوں کیلئے سمجھنا مشکل نہیں کہ موجودہ سسٹم میں رھتے ہوئے نام نہاد انقلابی پارٹیوںکے پچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اس لئے وہ آجاتے ہیں اور چھا جاتے ہیں اور پھر ایک دم غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ چائے نوشی میں ہمارے دوست ملک چین کے عوام پیش پیش ہیں وہ نہ صرف خود چائے نوشی کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو ترغیب دے کر چائے پینے پر مجبور بھی کرتے ہیں ۔
چین سے آمدہ ایک خبر کے مطابق چینی سائنسدانوں نے اپنی تازہ ترین تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ چائے میں ایسے اجزاءپائے جاتے ہیں جو انسانی جسم میں کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف قوتّ مدافعت پیدا کرتے ہیں خبر میں کہا گیا ہے کہ جو افراد روزانہ کم تین کپ چائے بلا ناغہ استعمال کرتے ہیں وہ سرطان جیسے مضر بیماری سے محفوظ رہتے ہیں جو لوگ چائے نوشی کے حق میں ہیں ان کا خیال ہے کہ چائے مختلف النوع قسم کی بیماریوں کا علاج ہے جس میں ذہنی پسماندگی، بے چینی،ٹینشن،ڈیپریشن وغیرہ کا خاتمہ شامل ہے جبکہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ چائے کا استعمال سستی اور کاہلی اور رفع کرنے اور ذہن کو تروتازہ رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی یہی وجہ ہے کہ پڑھنے لکھنے والے لو گ چائے کے کچھ ذیادہ ہی شوقین ہوتے ہیں جبکہ صحافی اور چائے ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں مگر چائے مخالف لابی کی اکثریت ایسی ہے جوچائے تو پیتے ہیںمگر اس کی مذمت کرنے میں بھی عارمحسوس نہیں کرتی ا ن کا دعویٰ ہے کہ موجود ہ دور کی پیجیدہ بیماریاں مثلاََشوگر، بلڈپریشر، السر، اور معدے اوردل کی بیماریاںمثانے کی کمزوری اور جسمانی لاغری وغیرہ کا سبب چائے کا بے دریغ استعمال ہے۔
آج کل کچھ مکتبہ فکر کے لوگ آبادی میں موجود ہ اضافے کا ذمہ دار بھی چائے کو گردانتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں چائے کی کثرت سے استعمال کی جاتی ہے وہاں کی آبادی دوسرے ممالک بر عکس مسلسل اگے بڑھ رہی ہے جیسے چین،بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان،اور انڈونیشیا وغیرہ ان کا خیال ہے کہ ترک چائے برتھ کنٹرول کا ایک اہم قدرت ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ تو تھیں ماہرین کی چائے کے متعلق متضاد آلاوہ جانے اور ان کا کام ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے البتہ پاکستانی وزارت بہبودآباد ی کو اپنے طور پر ریسرچ کر نی چاہیئے کہ آیا چائے واقعی آبادی میں اضافے کا موجب ہے اگر واقعی چائے آبادی کے ضافے میں ملوث ہے تو فوری طور اس کے انسداداور تدارک کیلئے الیکٹرانک میڈیا پر ایک اشتہار کا اضافہ کر دینا چاہیئے اور خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاری میں کچھ ترمیم کر کے ان الفاظ کا ضافہ کر دینا چاہیئے کہ,, چائے کم لسی ذیادہ۔
البتہ اس سلسے میں وذارت بہبود آبادی کو چائے کے خلاف مہم سے قبل وزارت ماحولیات پیشگی جازت لے لینی چاہیئے کیونکہ وزارت ماحولیات نے ایک خبر کے مطابق نیشنل ٹی ریسرچ سٹیشن کو وزارت ماحولیات کیونکہچائے کا پودا ماحول دوست ہے اور اس پودے کی عمرکافی ذیادہ ہوتی ہے اورمعاشی لحاظ سے اس میں فائدہ بھی ذیادہ ہے پاکستان اکثریتی علاقوں کی آ ب وہوا بھی چائے کی کاشت کے موافق ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ گدھے کے علاوہ کوئی دوسرا جانور چائے کے پودے کی پتے نہیں کھاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چائے کی ایک پیالی پر دوسروں کو خرید لیتے ہیں اوراپنا بڑے سے بڑا کام چائے کی پیالی کے بل بوتے پر بڑی آسانی سے کرا لیتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ابتداءچائے بطور دوا استعمال کی جاتی تھی صرف رات کو سوتے وقت چائے کا اہتمام کیا جاتا تھاچائے کے بعد بزرگ بچوں کو تاکید کرتے تھے کہ خبردار باہر نہ نکلنا ورنہ چائے کا اثر زائل ہو جائے گااور گرم سرد ہو کر کسی نادیدہ بیماری کا شکار ہو جاﺅگے اورشروع شروع میں چائے پینے والے کو پلانے والے دو تین بستروں میں لپیٹ لیتے تھے کہ میاں چائے پینے والے کو کہیں ہوا نہ لگے مگر اب وہ دن گئے جب خلیل میاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے کہ مصداق اب تو بغیر کسی وقت کے تعین کے چائے پی جاتی ہے اور پلائی جاتی ہے محفلوں اور مجلسوں کو سجایا جاتا ہے اور چائے کی پیالیوں کی کھنکھار سے مجلسیں رنگ پکڑتی ہیں بعض لوگوں کے نزدیک میز پر چائے پینے کیلئے پیالیاں سجانے کا مرحلہ اور پرچ پیالیوں کی باہم کھڑکڑاھٹ کی آواز ان کی محبوب ترین ہیںاور خلوص کے ظہار کو چائے کی پیالی سے الاپا جاتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ ”جس چا میںچاہ نہ اس چائے کو چا کو چاہ میں ڈالو“ ہمارے پڑوسی ممالک چین، بھارت، بنگلہ دیش چائے پیتے ہیں مگر دنیا کو پلا کر اپنے ملک کیلئے زرمبادلہ پیدا کرتے ہیںادھر ہم ہیں کہ سالانہ اربوں روپئے کی چائے درآمد کر کے پی جاتے ہیںجبکہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے بالائی علاقوں خاص کر ضلع مانسہرہ کی زرخیز وادیاں بفہ، شنکیاری اور وادی کونش کی زمینیں نہ صرف چائے کی کاشت کیلئے موزوں ہیں بلکہ یہاں کے چائے کی کوالٹی بھی نمبر ایک ہے حکومت نے اگر سالانہ ااربوں روپئے بچانے ہیں اور قوم کو چائے پلانی ہے تو اسے وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور چینی ماہرین کے تجربات سے استفادہ کرنا ہوگااس صورت حال میں اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہر گز اپنے آپ کو چینیوں کی طرح چائے پینے کا اہل ثابت نہیں کر سکتے!!!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے