کالم

پنچاےتی نظام ،فوری انصاف کی فراہمی کا طرےقہ

ملک بھر کے تھانوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کےلئے نےشنل پولےس بےورو نے پرانا پنچاےتی نطام بحال کرنے کی تجوےز دی ہے ۔بےورو نے وزارت داخلہ اور تمام آئی جےز کو سفارشات بھجوائی ہےں کہ تھانے اور پولےس کاعملہ کم اور مقدمات کی تعداد زےادہ ہے ۔پنجاب ،سندھ اور کے پی کے مےں آلٹر نےٹ ڈسپےوٹ رےزولےشن غےر فعال ہو چکے ہےں ۔تنازعات کے حل کا متبادل نظام لاگو اور تھانے کی حدود مےں اےسی اےک پنچاےت کا قےام عمل مےں لاےا جائے ۔ثالثی کرانے والے پنچاےتی ارکان کی ٹرےننگ کےلئے بھی مےکا نزم بناےا جائے ۔معزز قارئےن دوسری جنگ عظےم کے دوران برطانےہ کے وزےر اعظم ونسٹن چرچل سے کسی نے پوچھا کہ برطانےہ جنگ جےت جائے گا؟ چرچل نے جواب دےا کہ ”کےا برطانےہ کی عدالتوں مےں انصاف ہو رہا ہے ؟اگر اےسا ہے تو پھر ہم جنگ جےت جائےں گے ۔“اور اےسا ہی ہوا ۔چرچل کے اس مکالمہ کا مقصد ےہ ظاہر کرتا تھا کہ کوئی بھی معاشرہ انصاف کے بغےر زےادہ دےر تک زندہ نہےں رہ سکتا ۔نا انصافی پر مبنی معاشرہ اپنی اصلی قوت اور زندہ رہنے کی صلاحےت کھو دےتا ہے اور اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے ۔پاکستان مےں جہاں ملک کا سےاسی ،انتطامی ،سماجی اور معاشی ڈھانچہ فرسودہ ،بےکار اور ناکام ہو چکا ہے وہاں ہمارا عدالتی نظام بھی عوام کو انصاف فراہم کرنے مےں کامےاب نہےں ہو سکا ۔لوگ سالہا سال تک اپنے مقدمات کے سلسلے مےں کچہرےوں اور عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہےں ۔لےن دےن کے معاملات اور جائےداد کے تنازعات جےسے دےوانی مقدمات مےں پےچےدگےوں اور مختلف عدالتوں کے مراحل طے کرتے ہوئے لوگوں کی عمرےں گزر جاتی ہےں اور ےہ مقدمات نسل در نسل چلتے رہتے ہےں ۔ہم عدالتوں سے انصاف کے مطابق فےصلہ کی توقع رکھتے ہےں جبکہ ہمارا عدالتی نظام انصاف کی بجائے قانون کے مطابق فےصلہ کرنے کا پابند ہے ۔لاہور ہائےکورٹ کے اےک سابق چےف جسٹس اےم آر کےانی کے زمانے کا واقعہ ہے کہ اےک بوڑھی عورت ہائےکورٹ سے مقدمہ کا فےصلہ اپنے حق مےں نہ ہونے پر چےخ و پکار کر رہی تھی کہ جسٹس کےانی کمرہ سے باہر نکلے اور عورت سے پوچھا ”کےا بات ہے ؟ عورت نے کہا ”مےرے ساتھ انصاف نہےں ہوا ”جسٹس کےانی نے کہا ”بی بی تمہےں کس نے بتاےا کہ ےہاں انصاف ہوتا ہے ؟ےہاں تو قانون کے مطابق فےصلے ہوتے ہےں ۔اےک دےانتدار جج قانون کی حدود سے آگے پےچھے نہےں جا سکتا ،اس کے ذاتی علم ےا معلومات کے مطابق صورتحال مختلف ہی کےوں نہ ہو ۔اس طرح ےہ نظام انصاف کی بجائے قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کا پابند ہے ۔ ہمارے دےہاتوں مےں انصاف کے مطابق فےصلے کرنے کا آسان اور رواےتی طرےقہ اور نظام صدےوں سے چلا آ رہا ہے جو ہمارے مزاج ، نفسےات اور ضرورےات کے عےن مطابق ہے ،جس مےں فرےقےن کا اےک پےسہ بھی خرچ نہےں ہوتا ،تاخےر بھی نہےں ہوتی اور فےصلے بھی انصاف کے مطابق اور فرےقےن کی رضا مندی سے ہوتے ہےں اور فےصلوں پر عملدرآمد بھی ممکن ہوتا ہے ۔پنچاےت ےا جرگہ کے اس نظام مےں دونوں فرےقےن اپنی رضامندی سے ثالث مقرر کرتے ہےں ےا اپنی پسند کی اےسی پنچاےت کا انتظام کرتے ہےں جس پر دونوں فرےقےن کو اعتماد ہو ۔اس طرےقہ کار کے مطابق پنچاےت فرےقےن کا موقف اور گواہان کے بےانات سنتی ہے ۔حالات و واقعات کا جائزہ لےتی ہے اور انصاف کے مطابق فےصلہ کر دےتی ہے ۔پنچاےت غلط فےصلہ کرنے سے اس لےے بھی احتراز کرتی ہے کہ دےہات ےا محلہ کے لوگوں کو اصل صورتحال کا علم ہوتا ہے کہ کون سا فرےق حق پر ہے ۔غلط فےصلہ کی صورت مےں پنچاےت کے اراکےن کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پنچاےت کی کاروائی کھلی ہوتی ہے اور ہر شخص اسے دےکھ ےا سن سکتا ہے ۔اس قسم کے پنچاےتی نظام کا اےک فائدہ ےہ ہوتا ہے کہ فےصلہ اپنے گاﺅں ےا محلے مےں ہی ہو جاتا ہے ۔پنچاےت کے اراکےن اپنے محلے ےا گاﺅں کی صورتحال اور مقدمات کی نوعےت سے پہلے ہی واقف ہوتے ہےں اور آسانی کے ساتھ حقائق کی تہہ تک پہنچ جاتے ہےں ۔اکثر مقدمات مےں پنچاےت صلح کرا دےتی ہے ۔مقدمات مےں اضافہ کے باعث عدالتےں دباﺅ کا شکار ہو رہی ہےں اور عوام عدالتی نظام کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہےں ۔ےہی وجہ تھی کہ انگرےز نے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کےلئے پنچاےتی نظام کو پروموٹ کےا ۔پنچاےتی نظام کے باعث لوگ تھانہ کچہری کی ذلالت سے بچ جاتے اور ان کےلئے مفت انصاف کا حصول بھی ممکن ہوتا ۔گاﺅں کا نمبردار معتبر خےال کےا جاتا ۔وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کےلئے مددگار کا فرےضہ بھی انجام دےتا اور اس کی اطلاح مصدقہ اور معتبر ہوتی ۔اس کے فےصلے سے سر مو انحراف کی کسی مےں سکت نہ ہوتی ۔گاﺅں کے لوگ اس کے فےصلے کو تسلےم کرتے کےونکہ اسے حکومت کا ہی اےک حصہ خےال کےا جاتا ےہ نمبر دار کسی بھی مقامی جھگڑے کو نپٹانے کےلئے پنچاےت کا اہتمام کرتے فرےقےن کو بولنے کا موقع دےا جاتا ،پھر فےصلہ سناےا جاتا ۔اکثر و بےشتر فےصلے مبنی بر انصاف ہوتے ۔اگر نمبردار کو کبھی اپنی مرضی کا فےصلہ کروانا بھی ہوتا تو وہ پنچاےتےوں کو پہلے ہی قائل کر لےتا تھا ۔اگر پولےس کی مداخلت کو ضروری سمجھا جاتا اور وہ بھی نمبردار کو ترجےح دےتی اور پوچھ لےتی کہ کےا ہونا چاہےے ۔ےہ نمبرداری نظام جاگےر داری کا واضع عکس تھا مگر اس کے زےر انتظام ہونے والے پنچاےتی فےصلے اہم تصور کےے جاتے تھے اور لوگوں کو آسان اور مفت عدالت اور وکالت مےسر آتی تھی ۔اس نظام مےں بھائی چارے کی فضا کو فروغ حاصل ہوتا تھا ،احترام کا جذبہ ابھرتا تھا ،مل جل کر رہنے کو ہی ترجےح دی جاتی ۔لوگوں کے مےل ملاقات کے رجحان مےں کمی واقع نہےں ہوتی تھی ۔وہ اےک نجی قسم کی پنچاےت مےں گلے شکوے کر کے زندگی کے معمولات کو جاری رکھتے ۔راقم کو اپنے گاﺅںچٹی شےخاں جو ضلع سےالکوٹ کا اےک تارےخی قصبہ ہے کے نمبردار قرےشی محمد سرور مرحوم ےاد آرہے ہےں جو اےک مرنجاں مرنج شخصےت تھے ۔گاﺅں کے رفاع عامہ کا کام کروانا ،گاﺅں کی صفائی ستھرائی کا خےال رکھنا ،قوم قبےلے سے بالا تر بچوں کی امتحانی کامےابی پر انہےں شاباش اور تھپکی سے نوازنا ،بچوں کو غلط کاموں سے روکنا اور ان کی اصلاح کرنا ،گاﺅں کے جوہڑ جو مئی جون مےں گرمی کے باعث سوکھ جاتے اور پانی والی بوٹی سے بھرے ہوتے ،خود نگرانی کرتے ہوئے ان جوہڑوں کو بوٹی سے صاف کروانا ،گاﺅں مےں آوارہ کتوں کی ےلغار کا خاتمہ کروانا ،الغرض کون سا کام گنواےا جائے ،ےہی لوگ اپنے خلوص و اخلاص کے باعث انسانےت کے مقام پر فائز تھے ۔آج حالات کی تبدےلی نے ہم سب کو خود غرض بنا دےا ہے ،منافقت سکھا دی ہے ،مہرووفا کے جذبوں کو سرد کر دےا ہے ،ےہی وجہ ہے برداشت قرےباً ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اےک دوسرے کی عزت نفس اور قدروقےمت کو بے معنی سمجھا جانے لگا ہے ۔اسی لےے فاصلے بڑھ رہے ہےں ،منفی سوچےں پروان چڑھ رہی ہےں ،لوٹ کھسوٹ کے کلچر کو فروغ مل رہا ہے ۔اس طرح عدالتوں کا کام بڑھ گےا ہے اور ےہ اپنی جگہ پر بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جو لوگوں کو پرےشان کر رہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک مےں پنچاےت سسٹم بحال کےا جائے اور اس کے فےصلوں کو قانونی حےثےت دی جائے اور معمولی نوعےت کے مقدمات لڑائی جھگڑوں اور لےن دےن کے معاملات ،طلاق وغےرہ جےسے خاندانی مسائل اور جائےداد کے چھوٹے تنازعات ان پنچاےتوں کے اختےار مےں دئےے جائےں اور انہےں اےک مقررہ معےاد کے اندر فےصلہ کرنے کا پابند بناےا جائے۔ثالثی کرانے والے پنچاےتی ارکان کی ٹرےننگ کےلئے بھی مےکانزم بناےا جائے ۔جرگہ اور پنچاےت کا نظام بلوچستان اور خےبر پختونخواہ مےں اب بھی فعال ہے ۔2017ءمےں پاکستان مےں قومی اسمبلی نے اےک اےسے مسودے کی منظوری دی تھی جس کا مقصد ملک مےں غےر رسمی عدالتی نظام جرگے اور پنچاےت کو آئےنی اور قانونی تحفظ دےنا تھا ۔ اپوزےشن نے پنچاےت اور جرگہ کی واضح تشرےح کرنے اور غےر جانبدار پےنل کی نامزدگی کا اختےار عدلےہ تک محدود رکھنے کا مطالبہ کےا تھا ،سماجی تنظےموں کے تحفطات بھی سامنے آئے تھے ۔بہتر ہو گا پنچاےتی نظام کو موثر بنانے کےلئے اس کے اصول و قواعد بھی مرتب کےے جائےں کےونکہ ماضی مےں کئی پنچاےتوں کے بھےانک اور ناروا فےصلے بھی سامنے آئے جن پر عورتوں کو گےنگ رےپ کا نشانہ بناےا گےا ۔کم سن بچےوں کو اپنے مرد رشتہ داروں کے جرائم کا خمےازہ بھگتنا پڑا ۔ےہ نظام اسی صورت مےں ہی موثر ہو گا جب پڑھے لکھے لوگوں کو پنچ مقرر کےا جائے جنہےں قانون اور انسانی حقوق سے آگاہی ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے