اس وقت غزہ میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اسرائیلی بمباری نے تباہی مچائی ہوئی ہے امریکہ اور پورا یورپ اسرائیل کے ساتھ ہے، بڑے پیمانے پر امریکہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے ۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموش ہیں ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جنگ میں تیزی آرہی ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یہ جنگ اسرائیل کے اندر بھی لڑی جا رہی ہے۔ ایک طرف امریکی اسلحہ یوکرین میں استعمال ہو رہا ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف بھی امریکی اسلحہ شدت سے استعمال ہو رہا ہے۔ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ مغربی میڈیا ایک دم سے اسرائیل کے اندر جنگ اور نقصان کو ہائی لائٹ کر کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اور اس میں تیزی لانے کی یہ ایک منظم کوشش ہے اورموجودہ حملوں کو جواز بنا کر اسرائیل لبنان کی جانب ہیش قدمی کریگا یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ ہمیشہ اسرائیل کی دلچسپی لبنان کے علاقے پر رہی ہے اب اسرائیل اس علاقے پر قبضہ جمانے کی کوشش کریگا۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ ایک بڑے جنگ کی شروعات ہیں ۔ اس موقع پہ مسلم ممالک کو متفقہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔جس طرح ایران، شام اور عراق نے واضح موقف دیا ہے اس پر اسلامی ممالک کو متفق ہونا ہوگا ورنہ فلسطین کے زخم سب پر پڑیں گے۔فلسطین دنیا کا مظلوم ترین ملک ہے اور فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی جبر اور استبداد کا سامنا ہے مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور چن چن کر مسلمانوں کو گولی کے نشانے پر رکھ کر قتل کیا جارہا ہے اور دنیا خاموش ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور اسلامی امہ کو اپنے مفادات عزیز ہیں اس وقت اسرائیلی جارحیت عروج پر ہے فلسطین سے ایک بار پھر یہ صدا بلند ہوئی ہے کہ میڈیا عالمی فورمز پر ہماری مظلومیت کی آواز اٹھائے۔ فلسطین تیل کے ذخائر سے مالامال ہے امریکہ اسرائیل کی حمایت کر کے فلسطینیوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے ۔ فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میںظلم ہورہا ہے مگر اسلامی دنیا خاموش ہے البتہ ایشیائی ممالک کا فلسطین کے تنازع حل کرنے پر زور دیا گیا ہے ج میں روس، شمالی کوریا اور چین شامل ہیں ۔ جنہوںنے مسئلہ فلسطین کے حل پر زور دیا ہے اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے خاتمے اور باہمی تعلقات بہتر بنانے اور باہمی تنازعات کے حل پر زور دیا ہے۔اس وقت ایشیا میں فلسطین ایسا مسئلہ ہے جو طویل عرصہ سے حل طلب ہے اور اس کی وجہ سے خطے کا امن مسلسل خطرے کی زد میں رہتا ہے۔اب اگر مسئلہ کے حل کی طرف ایشیائی ممالک کی تنظیم نے نشاندہی بھی کردی ہے تو اس کیلئے بھی انہیں مل بیٹھ کر کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکالنی چاہیے تاکہ ایشیا سمیت تمام دنیا کا امن برقرار رہے۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے یہ امر حیرت انگیز ہے کہ عرب ممالک دور دراز ممالک میں جہادی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں مگر مسئلہ فلسطین کو انہوں نے مسلسل نظر انداز کیا ہے مظلوم فلسطینیوں کی آواز ان کو سنائی نہیں دے رہی ہے تیرہ سال تک امریکہ کے چھتری کے نیچے افغانستان میں جہاد ہوا مگر اس دوران مسئلہ فلسطین سے غفلت برتی گئی اور جس کسی نے بھی امریکی سامراج اور صیہونیت کے خلاف آواز بلند کی میڈیا نے ان کے خلاف خوب پروپگنڈہ کیا اور ان کو بدنام کیا اور امریکی سامراج کو یہ موقع دیا کہ وہ انہیں کچل دے جس کی مثال عراق اور لیبیا ہیں جہاں صدام حسین اور معمر قذافی کو شہید کیا گیا اور ان کی حکومتوں کو گراکر وہاں کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے اور شام کے مسئلہ کے موقع پر کچھ اسلامی ممالک سے مطالبہ سامنے آیا کہ امریکہ شام کے اسلام پسند باغیوں کی مدد کرے خرچہ ہم دینگے ۔ کیا امریکہ کو جنگ کا کرچہ دینے والوں نے کبھی مظلوم فلسطینیوں کی بابت بھی امریکہ سے بات کی ہے؟ امریکہ کے مفادات کیلئے عالم اسلام نے جنگیں لڑی اور ان جنگوں کو مقدس عنوان دے کر خرچہ بھی برداشت کیا مگر فلسطین کے مسئلہ پر انہوںنے مجرمانہ غفلت برتی ہوئی ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سامراجی چکر میں آکر مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالا گیا فی الوقت بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کہاں ہے؟ کیا دنیا کو اس کی فکر بھی ہے؟ میڈیا جو دنیا کی مﺅثر قوت ہے اسے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی آواز اٹھائے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اپنے ذمہ داریاں پوری کریں۔ اس سلسلے میں چین اور روس کا کردار قابل تحسین ہے!۔
