ایک رپورٹ کے مطابق 2024ء میں پنجاب میں 11لاکھ42ہزار سے زیادہ جرائم کیسز رپورٹ ہوئے جو 2023ء کے مقابلے میں 31ہزار زیادہ تھے ۔زیادہ تشویشناک امر یہ تھا کہ 2024ء میں اغوا کے چھ ہزار جبکہ قتل کے 5121کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے ۔اجرتی قاتل پیسے کے عوض انسانی جان لینے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔یہ بے رحم اور تربیت یافتہ قاتل نہ صرف معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہے تھے بلکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکے تھے ۔انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو 22مارچ1861ء کو پولیس ایکٹ کی تشکیل ہوئی جس کا مقصد عوام کا استحصال کرنا اور اپنے قومی مفادات کو تحط دینا تھا ۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بھی پولیس کا محکمہ اسی ایکٹ پر استوار ہے ۔چونکہ ہماری اشرافیہ پولیس کے ذریعے عوام پر حکومت کرتی ہے لہذا کسی حکمران نے پولیس ایکٹ تبدیل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی ۔جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے ریاستی نظام کی تشکیل نو کیلئے ایک قومی بیورو قائم کیا جس نے عوامی مشاورت سے پولیس ایکٹ 2002ء تیار کیا جس کو پولیس کے تمام ماہرین نے سراہا بھی لیکن اس پر پوری طرح عمل درآمد بھی نہیں ہوا تھا کہ2004ء میں سیاسی حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے اس میں من مرضی کی ترامیم کر لیں ۔افسوس حکمرانوں نے اس عوام دوست پولیس ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہونے دیا ۔یہی وجہ رہی کہ روایتی پولیس سے جہاں ممبران اسمبلی اپنے علاقوں کے تھانوں میں پسندیدہ ایس ایچ اوز لگواتے ہیں ،چھوٹا عملہ بھی انہی کی سفارشات پر تعینات ہوتا ہے ۔یہی پشت پناہی بڑی حد تک اس قانونی ابتری کی ذمہ دار ہے ۔پنجاب میں جرائم کی وارداتوں میں غیر معمولی اضافے نے یہ تاثر بھی پختہ کیا کہ خود پولیس والے ان جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور انہیں پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں ان جرائم کے پیچھے وہ با اثر لوگ ہوتے ہیں جو سیاست سے لیکر قانون نافذ کرنے والے اداروں تک مضبوط رسائی رکھتے ہیں ۔ہمارے حکمران طبقات کے کاروبار کا وسیع تر حصہ بھی غیر قانونی جرائم پر مبنی ہوتا ہے ۔اس لئے اس کے فروغ کیلئے ان کو طاقت ،اقتدار اور ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی شدید ضرورت پیش آتی ہے اور پولیس اہلکار جرم کے خاتمے اور مجرم کو پکڑنے والی طاقت کی بجائے خود مجرم بن جاتے ہیں ۔ہمارے ہاں تو یہ روایت رہی ہے کہ کسی بھی قانون شکنی کے واقعہ کے رونما ہونے کے بعد حکومتی زعما بڑے متفکر ہوتے ہیں ،قانون شکنی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن چند دن بعد وہ سکوت اور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں بقول ساغر صدیقی ،موج گریہ سے لپٹ جاتے ہیں وعدے ان کے ،غم کا طوفان کھلونوں سے بہل جاتا ہے ۔کرائم ریٹ کے حوالے سے پنجاب جس نہج پر پہنچ چکا تھا اس کا خاتمہ ناگزیر تھا اور کسی بڑی تبدیلی کا متقاضی بھی ۔پہاڑ سے چھلانگ تو ایک لمحے میں لگائی جا سکتی ہے لیکن ایک لمحے میں اس کی چوٹی سر نہیں کی جا سکتی اس کیلئے جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی ہے ،دل کا اجڑنا سہل سہی ،بسنا سہل نہیں ظالم ،بستی بسنا کھیل نہیں ،بستے بستے بستی ہے ۔کرائم کے حوالے سے بگاڑ ایک دن میں پیدا نہیں ہوا اس ناسور نے آہستہ آہستہ جڑیں پکڑ کر پورے معاشرے کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ہے ۔پنجاب کے بعض علاقے تو علاقہ غیر بنتے جا رہے تھے جہاں غنڈہ عناصر نے اپنی سلطنت قائم کر رکھی تھی ۔علاج بیماری کا ہوتا ہے ناسور کا علاج نہیں ہوتا ۔کینسر زدہ حصے کو نکالنے کیلئے آپریشن ناگزیر ہوتا ہے ۔منظم جرائم پر قابو پانے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے انتظامی ڈحانچے میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے آرگنائزڈ کرائم یونٹ ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) میں ضم کرتے ہوئے پنجاب پولیس کی تاریخ کے پہلے کرائمز کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی منظوری دی ۔چار ہزار دو سو پچاس افسران پر مشتمل سی سی ڈی میں تین ڈی آئی جیز ،متعدد ایس ایس پیز اور ڈی ایس پیز افسران شامل ہیں ۔ضلعی سطح پر الگ سی سی ڈی پولیس اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن کی تعداد 38ہے ۔سی سی ڈی اگرچہ پنجاب پولیس کا حصہ ہے مگر روایتی انداز میں اسے مجرم تک پہنچنے میں رکاوٹ بننے والے اپنے ہی پولیس کلچر سے دور رکھا گیا ہے جس کی قیادت ڈی آئی جی سہیل ظفر چٹھہ کر رہے ہیں ۔سی سی ڈی ذیلی اسٹیشن براہ راست اپنے ہیڈ کوارٹر سے احکامات وصول کرتے اور ان پر عمل درآمد کرواتے ہیں ۔ان دنوں روزانہ ہم کہیں نہ کہیں سی سی ڈی اور خطرناک ملزموں کے درمیان فائرنگ کے تبادلوں کی خبریں سنتے ہیں چند ہفتے قبل حافظ آباد کے رہائشی میاں بیوی جن کو اغوا کر کے شوہر کے سامنے بد اخلاقی کا نشانہ بنایا گیا اور میاں بیوی کو بھی زبردستی بد اخلاقی پر مجبور کیا سی سی ڈی نے پولیس کیلئے اس چیلنج کیس کو چھاپے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میںملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا ۔گوجرانوالہ کے تھانے لدھے والا وڑائچ کے علاقہ میں سی سی ڈی ٹیم کا مبینہ مقابلہ ہوا جس میں سیشن کورٹ میں فائرنگ کر کے دو افراد کو قتل کرنے والا ملزم مارا گیا ۔ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والی ماں اور بیٹی کے لاپتہ ہونے کا کیس سی سی ڈی نے جدید سائنسی بنیادوں پر تفتیش کرتے ہوئے سراغ لگایا اور لاشوں کی بے حرمتی کرنے والے 3ملزمان کو گرفتار کیا ۔فیصل آباد کے چار سگے بھائی گلفام شاہ وغیرہ جن کا ایک منظم گینگ تھا اور اپنے گائوں کے قریب دو مربع میل پر مشتمل جنگل میں اپنا ٹھکانا بنا رکھا تھا ان کا معمول فیصل آباد کی تاجر برادری سے بھتہ وصول کرنا اور اجرت پر قتل کرنا تھا ۔انہوں نے ایک سال قبل دو خواتین کو مخبری کے شبے میں علاقہ تھانہ جڑانوالہ لے جا کر قتل کیا اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ اس کی تشہیر بھی کی گئی ۔اطلاع دینے والے ڈولفن کے اہلکار آصف کو شہید کر دیا ۔یہ سی سی ڈی کا ہی کمال ہے کہ یہ کریمینل گینگ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے ۔فروری سے لیکر اب تک 15سو بیس سے زائد خطرناک مجرموں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ ایک سو بانوے کے قریب اشتہاری مطلوب دہشت گرد اور مجرم مقابلوں میں ہلاک کئے جا چکے ہیں ۔سی سی ڈی بیرون ملک فرار جرائم پیشہ اور اشتہاری ملزمان کی گرفتاریوں کیلئے بھی متحرک ہے اور اب تک متعدد ملزمان کو باہر سے گرفتار کر کے پاکستان لایا جا چکا ہے ۔بیرون ملک سے لائے گئے ملزمان کے ساتھ سی سی ڈی اب تک سینکڑوں بچوں کو واپس ورثاء تک پہنچا چکی ہے ۔جرائم کی شرح میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔بیشتر اشتہاری ملزمان فرار اور روپوش ہو چکے ہیں بڑے بڑے کریمنل قرآن مجید پر حلف اٹھا کر جرائم سے توبہ کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز بنا کر لوڈ کرتے نظر آ رہے ہیں ۔عام شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ماورائے قانون کی صدائیں بھی سنائی دینے لگی ہیں اور مجرموں کو بچانے کیلئے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کو ماورائے قانون سزائوں کا غم کھائے جا رہا ہے ۔سی سی ڈی کی کاروائیاں ان مظلوموں کا کتھارسس کر رہی ہیں جن کے مجرم ان کے ساتھ ڈکیتی ،لوٹ مار اور دوران ڈکیتی خواتین کے ساتھ ریپ کی وارداتیں کرنے کے باوجود بھی سر عام دندناتے پھر رہے تھے انہیں عدالتیں سزائیں دے رہی تھیں اور نہ پولیس ان پر پکا ہاتھ ڈالنے میں کامیاب ہو رہی تھی ۔مجرموں کی دہشت اور اپنی موت کے خوف سے اکثر مدعی اور گواہان ان کے خلاف کیس کی پیروی کرنے اور گواہی دینے سے ڈرتے تھے اور یہ گرفتار ہونے کے بعد بھی چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو جاتے تھے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ جرائم اور مجرموں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سی سی ڈی میں فرائض سے غفلت برتنے پر احتساب کا عمل بھی شروع ہے ۔کرپشن کی شکایات پر سی سی ڈی کے چار افسران انسپکٹر ظفر گرواہ،سب انسپکٹر مسعود احمد ملتان ریجن ،سب انسپکٹر دیس محمد لاہور ریجن اورہیڈ کانسٹیبل شہزادمحمود سرگودھا ریجن کو کرپشن کے الزام میں معطل کر کے انکوائری کا عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ابھی تک سی سی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے مجرموں میں سے کسی کے ورثاء نے مقابلے کو جعلی قرار نہیں دیا اور نہ ہی جوڈیشل انکوائری کی درخواست دی ہے ۔آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان اور سی سی ڈی کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ کی قیادت میں جرائم کے خلاف ایسا سخت گیر اور موثر ایکشن دیکھنے میں آیا ہے ۔شہریوں نے ان شاندار کامیابیوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف ،انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی ڈی کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے ۔