کالم

پچھتاوے سے کیا ہوتا جب چڑیاں چک گئیں کھیت

انتخابی منشور۔

کوئی مزدور ہو یا صنعتکار، کسان ہو یا زمیندار، افسر ہو یا اہلکار جسے دیکھو زندگی کی ہماہمی اور ہوشربا گرانی کے ہاتھوں تنگ بلکہ آمادہ جنگ نظر آتا ہے لیکن جب ذاتی معاملات کو نپٹا تا اور غمی خوشی کے لمحات میں گھریلو تقریبات کا اہتمام کرتا ہے تو سب کچھ بھول کر نمودونمائش تصنع و تکلف اور بے جا زبائش کا مظاہرہ کرتا ہے – جس سے کم حیثیت لوگ بھی، تقلید پہ مرتے یا حسد و بغض سے جلتے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے اہل پاکستان یا مسلمان کے شایان شان نہیں ہے – علاوہ ازیں جب آدمی جوش کے بعد ہوش کے ناخن لیتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے فضول خرچی اور اسراف سے قرضوں، احباب کی ندامت اور آئندہ زندگی کی کئی الجھنوں میں گرفتار ہوجاتا ہے مگر سوائے پچھتانے کے اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔ البتہ، وعظ و نصیحت کرنے والوں کی بات چیت اور عزیز دوستوں کی سادگی اور کفایت شعاری کی تلقین رہ رہ کر یاد آنے لگتی ہے لیکن” اب پچھتاوے سے کیا ہوتا جب چڑیاں چک گئیں کھیت” کی تصویر بن جاتا ہے۔ وہی سادگی جو مادی و اقتصادی مسائل سے بھی محفوظ رکھتی ہے اور ذہنی و روحانی سکون و راحت بھی عطا کرتی ہے اور وہی کفایت شعاری جو افراط و تفریط کے چنگل سے نکال کر مستقبل بعید میں آنےوالی مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت و طاقت اور دولت و ثروت فراہم کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنے غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرنے اور روزمرہ کے مصارف میں اعتدال اور میانہ روی اپنانے کا نام سادگی اور کفایت شعاری ہے جو لوگ اپنی عمارت کا رعب جمانے اور عظمت ورفعت کا ڈھونگ رچانے کےلئے فضول خرچی اور اسراف سے کام لیتے ہیں وہ نہ صرف اپنے اور اپنی نسل کے قاتل ہے بلکہ قوم و وطن کےلئے بھی زہرہلاہل ہیں – حضور سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم خود سادگی وکفایت شعاری کا اعلیٰ ترین ماڈل تھے۔ قدم قدم پر میانہ روی کا درس دیتے اور اس پر سختی سے عمل پیرا بھی رہتے نہ خود تکلف، زیبائش، بناوٹ اور نمود و نمائش کو پسند کیا اور نہ ہی صحابہ کرام یا اہلخانہ کو زیب و آرائش کا موقع دیا۔ آپ خالق کائنات کی جانب سے قاسم رزق کے مرتبہ پر فائز تھے حتیٰ کہ میدان محشر میں بھی ساقی کوثر کا اعزاز پائیں گے لیکن گھر میں کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا ، خود نہ کھاتے البتہ سائل کو دے دیتے ہیں گھر کے کام خود کر لیتے جھاڑو دے لیتے، جوتا سی لیتے، گدھے کی سواری کر لیتے اور مسکینوں کے ساتھ کھانا کھا لیتے ان کو سودا لادیتے، بیمار کی عیادت کرتے اور کم حیثیت لوگوں سے ملنے میں عار محسوس نہ کرتے ، الغرض حضور پر نور شافع یوم نشور کی سادگی اور کفایت،مسلمانان عالم حتیٰ کہ تمام بنی نوع انسان کےلئے بہترین نمونہ عمل ہے ۔ آپ نے احادیث مبارکہ کے ذریعے بھی اس عمل کی تبلیغ کی۔ مثلا”سادہ زندگی گزارنا ایمان میں ہے”اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔ضول خرچی کرنےوالوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھا¶ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنےوالوں کو پسند نہیں فرماتا-فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبیہہ کی گئی ہے اور ایسے کرنےوالوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ”اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑا¶” بیشک فضول خرچی کرنےوالے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اخراجات کا جائزہ لیں تو جو فضول یا زائد چیز نظر آئے تو اسے اپنے اخراجات سے نکال دیں اور جو صحیح معلوم ہو اسے باقی رکھیں، پھر ہمیں اپنے سے اوپر والوں کو نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کے پاس تو گاڑی ہے اور میرے پاس موٹر سائیکل بھی نہیں، اس کے پاس تو بنگلہ ہے اور میرے پاس تو اپنا ذاتی گھر بھی نہیں، بلکہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کتنے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس کھانے کو رزق نہیں ہے اور نہ ہی پہننے کو کپڑے ہیں۔ان شا ءاللہ ایسا کرنے سے میانہ روی کرنے، جو ہے اسی پر قناعت و صبر کرنے کا جذبہ ملے گا اور ہمیں چاہیے کہ ہم جس حال میں بھی ہیں، ہمیں اللہ پاک کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔حدیث پاک میں ہے:” قیامت کے دن ہر فقیر اور مالدار اس کی تمنا کرے گا کہ (کاش) دنیا میں اسے صرف ضرورت کے مطابق رزق دیا جاتا ۔ کاش ہمیں معلم اخلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اقدس ازبر ہوتا کہ” جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا اور جو شخص حاجت سے زیادہ مکان بنائیگا قیامت کے دن اس کو حکم دیا جائے گا کہ اس کو اپنے سر پر اٹھا لے”ہم ہزاروں لاکھوں روپے محض اس لیے خرچ کر دیتے ہیں کہ ہمیں امیر کبیر اور ارفع واعلیٰ سمجھاجائے۔معاشرے میں ہماری آ¶ بھگت ہو، لوگ ہمارے استقبال اور جا بجا ذکر و فکر پر مجبور ہوں گویا ہمارے سوا کوئی اور اہم نہیں ہے اور یہی غرور و تکبر ہے جسے اسلام نے برا جانا ہے۔ ہماری انہی فضول خرچیوں بلکہ شاہ خرچیوں سے نہ صرف ہمارے بوڑھے والدین اور معصوم اولادیں بہتر خدمات اور سازگار حالات سے محروم ہیں بلکہ ملک و ملت بھی خود کفالت کی دولت سے عاری، بھاری قرضوں میں پھنسی، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے یہ بے پنا رقم جو ہماری ٹیپ ٹاپ ، ملکی و غیر ملکی دوروں، وفود کے تبادلوں، جلسوں جلوسوں یا افسروں اور وزیروں کے استقبال پر خرچ ہوتی ہے کاش یہ سماجی خدمت کے کاموں ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں، سکولوں اور کالجوں ، گمشدہ بچوں کے مرکزوں اور غریبوں، یتیموں اور بیوا¶ں کے مسائل کے حل کرنے میں صرف ہوتی اور وطن عزیز کے کچھ دکھوں کا مداوا ہوتا ورنہ اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے وہ کسی بھی جرم کی پاداش میں پکڑ سکتا ہے کیونکہ مظلوم کی بد دعائیں آسمان کوچیر کر عرش تک پہنچ جاتی ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri