ہماری نئی نسل فیشن کی بہت دلدادہ ہے مغرب میں جو فیشن متعارف ہوتا ہے وہ سیلاب کے پانی کی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں بغیر روک ٹوک پہنچ جاتا ہے فیشن کو اپنانے والے بغیر سوچے سمجھے اس کی زد میں آجاتے ہیں چاہے وہ فیشن ان کے سراپے پہ بھلا لگے یا اس کے برعکس آجکل کچھ نوجوان اپنے سر کے بال بڑھانے کا شوق رکھتے ہیں وہ لڑکیوں کی طرح چٹیا بناتے ہیں کیچر لگاتے ہیں تاکہ بال سمٹے رہیں اور ہئر بینڈ وغیرہ ان کیلئے سب جائز ہے کچھ ایسے بھی منچلے ہیں جو ہاتھوں میں مختلف رنگوں کے رسٹ بینڈ باندھتے ہیں ہاتھ کی چھنگلی پر نیل پالش رہی سہی کسر بھی پوری کر دیتی ہے وہ میل کے بجائے فی میل کے انداز میں لہک لہک کر باتیں کرتے ہیں بلکہ کسی بات پر حیران ہونے کیلئے ایسی آوازیں ان کے منہ سے نکلتی ہیں کہ جس طرح لڑکیاں حیرانی کے انداز میں آواز نکالتی ہیں ایسی شخصیات بیک سے باجی اور فرنٹ سے بھاجی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ بالوں کی چٹیا اور دیگر لوازمات ہیر لک میں اضافہ کرتے ہیں اس لیے بندہ پہلی نظر میں دھوکا کھا جاتا ہے کہ موصوف صاحب ہے یا صاحبہ۔ایسے ہی خاتون نما صاحبزادے سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا میں نے پوچھا آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مرد بنا کر بھیجا ہے آپ میں وہ تمام خوبیا ں موجود ہونی چاہئیں جو ایک مرد کا خاصہ ہے آپ فطرت کی تخلیق کے برعکس اپنے آپ کو فی میل سیکس کیوں بناتے ہیں فرمانے لگے دل چاہتا ہے مردانہ کٹنگ کروا کروا کر اور ایک ہی طرح نظر آکر دل تنگ ہو گیا تھا اس لیے سوچا اب شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے اسے تبدیل کیا جائے یعنی عام نظروں کو کچھ علیحدگی کا احساس ہو اور وہ نظریں ہم پر بار بار اٹھیں مزید فرمانے لگے لوگ سر کے بال بھی تو منڈوا لیتے ہیں کچھ لوگ تو خاص طور پر ایسا کرتے ہیں آپ انہیں کیوں نہیں کہتے کہ اللہ نے جوآپ کی شخصیت بنائی ہے اس میں تبدیلی کیوں کی بالوں میں مانگ نکالیں خوبصورت نظر آئیںمیں کہا کچھ لوگ سر پر ٹوپی یا پگڑی باندھ لیتے ہیں سر ننگا نہیں رکھتے وہ لوگ شکل صورت اور لباس سے پاکیزہ نظر آتے ہیں پھر فرائض ادا کرنے کیلئے سادگی پسند ہونا ان کا خاصہ ہے وہ کسی فیشن کے تحت تو ایسا نہیں کرتے آپ تو مغربی فیشن کے تحت مرد سے خواتین نما مرد بنتے ہیں تو یہ نا شکری کی بات ہوئی کہنے لگے ہمارا جو دل چاہتا ہے کریں گے شخصی آزادی پر آپ جیسے ناقدین پابندیاں لگواناچاہتے ہیں ایسا کر کے دیکھ لیں کامیابی نہیں ہوگی آخر ہم آزاد پیدا ہوئے ہیں آزاد ہی رہیں گے میری ذاتی زندگی میں کسی کا دخل کیوں ہو۔ میں نے کہا کل آپ غرارہ پہن کر گھومیں گے تو کیالوگ آپ پر ہنسیں گے نہیں تنگ کرکہنے لگے بھاڑمیں جائیں لوگ۔ان کی پرواہ کرتے رہے تو کبھی معاشرتی زادی سر نہیں اٹھا سکتی ہمیشہ گھونگھٹ سے جھانکتی رہے گی آپ کو کیا تکلیف ہے ہم جس طرح چاہیں رہیں کسی کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچاتے دونوں ہاتھوں سے کسی کی دولت تو نہیں لوٹتے اپنی ذات سے کسی کو آرزدہ تو نہیں کرتے جس طرح یہ نام نہاد سیاست دان ہیں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ملک کے خزانے کو طرح طرح سے لوٹ کرمعصوم اور ملک کے وفادار بہی خواہ بنتے ہیںآپ نے ایک وزیر کے حالیہ بیان پر غور کیا فرماتے ہیں ملک میں ہر طرف کرپشن بڑھ چکی ہے ترقیاتی منصوبوں پر کم خرچ ہوتا ہے زیادہ حصہ لوٹ مار کی نذر ہو جاتا ہے، وہ صاحب متعدد بار ایم این اے بنے ہیں وزیر یا تدبیر بھی بنتے رہے ہیں اب بھی حکومت کا حصہ ہیں یہ بیان دینے سے پہلے انہیں کچھ سوچ لینا چاہیے تھا جب انہیں معلوم ہے تو پھر انہوں نے اب تک کرپشن روکنے یا اسے جڑ سے ختم کرنے کیلئے کیا منصوبہ سازی کی صرف بیان دینا کافی نہیں صاحب اقتدار قومی مفاد میں عمل کرتا ہے تبصرے نہیں یہ عام آدمی کا شعبہ ہے ایسے لوگ باتیں بناتے ہیں اور صرف اپنا خیال رکھتے ہیں سیاستدانوں کا گروہ اس ملک کی دولت اور غیر ملکی امداد کو حسب معمول چاٹتا رہتا ہے سیاست ان کیلئے کاروبار ہے اور عزت مفت میں ۔ عوام کا قصور ہے انہیں کیوں منتخب کرتے ہیں تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے باکردار لوگ کیوں اسمبلیوں میں نہیں پہنچتے سیلاب کی مد میں اب جو مالی امداد دنیا سے اکٹھی ہوگی اسکا بیشتر حصہ بھی ان کے غیر ملکی اکاونٹ کی زینت بنے گا لوگ بے سہار ا ہی رہیں گے آپ خاموش میرا منہ کیا تک رہے ہیں بولیں ہمارے فیشن کرنے پر آپ کو بہت اعتراض ہے لوٹ مار کرنیوالے حکمرانوں کی کارگردگی پر آپ کی زبان پر فالج کے اثرات کیوں نمایا ں ہو جاتے ہیںملک کے خزانوں کو بنجر کرنے والوں کا محاسبہ کیوں نہیں ہو سکتا اسمبلیوں میں بیٹھ کر لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات لینے والے اپنے منتخب کرنے والوں کو کیوں بھول جاتے ہیں بڑی بڑی گاڑیوں پر دھول اڑانے والوں پر آپ خاک کیوں نہیں ڈالتے ہم بالوں میں پنیں لگا لیں تو آپ سے برداشت نہیں ہوتا ربن لگا لیا تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہم نے کونسا ملکی خزانہ لوٹ کر بالوں کی زیبائش کے لیے چیزیں خریدیں اپنی جیب سے خرچ کیا ہم ان کی طر ح نہیں جو عوام کے احسان فراموش بے ضمیر لٹیرے رہنما ہیں ملکی دولت لوٹ کر بھی ڈکار نہیں مارتے حرام کے پیسے سے اولادیں کو عیش کرواتے ہیں عوام کے منہ سے نوالے چھین کر اپنی کوٹھی دانے بھرنے والوں کوکھلا چھوڑا ہوا ہے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی گھڑیاں باندھے اور مہنگے ترین موبائیل رکھنے والوں کے گریبانوں تک ہاتھ بڑھانے کیلئے آپ کیوں بیخوف نہیں ہم نے فیشن کر کے اپنا دل خوش کر لیاتوآپ کو تکلیف ہو گئی آپ کو دھوکا دینے اور ملک کو معاشی اور مالی طور پر منگتا بنانے والوں پر غصہ کیوں نہیں آتا ان پر لعن طعن کرنے کا حوصلہ کیوں نہیںآپ کو دندل کیوں پڑ جاتی ہے نیپال اور انڈونیشیا میں کیا ہوا وہ قومیں ہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے بولیں مجھے کیوں گھوررہے ہیں سچی باتیں ہیں اسلئے آپ اس کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں کیا ان بے ضمیر اور بے ایمان رہنماوں کے آپ وکیل بن سکتے ہیں وہ کچھ بھی کریں ان کوپوچھنے والا کوئی نہیں چوراں تیمور تے موراں تے ہورحالات ہیں یہ مٹھی بھر لوگ آزاد ہیں ہم نے اگر اپنی خوشی کیلئے فیشن کرلیاتو یہ آپ کی نظر میں کھٹک رہا ہے آپ نیوٹرل ہو کر بات کریں اللہ سے ڈریں مون سون کا دسواں سپیل شروع ہو چکا ہے دشمن نے توراوی ستلج اور چناب میں ایک سازش کے تحت پانی کا اخراج کیا ہے جس سے تباہی میں مزید اضافہ ہوا ہے قرآن کریم میں قوم سبا کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کا سیلاب بھیج دیا اور ہم نے ان کوباغوں کے بدلے دو باغ دیے جو بدمزہ میووں والے جھاو اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے ہم نے ان کی نا شکری کا بدلہ انہیں دیاہم سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں کو دیتے ہی ۔اس وقت قوم کی جو حالات ہے اس پر غور فرمائیںکونسا گناہ ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں ہو رہا سیلاب کی آفت اللہ کی ناراضگی کا ہلکا سا اظہار ہے ہمارے رہنمائوں کو خصوصی طور پر اور ہماری عوام کو بھی اللہ سے معافی مانگنی چاہیئے اللہ ہر آزمائش کو اپنی رحمت سے ختم کرے اور حضورۖکے طفیل ہم پر بحیثیت قوم رحم ، کرم فرمائے میں اس فیشن زدہ نوجوان کی باتیں سن کر حیران رہ گیااللہ انہیں مرد بنے رہنے کی توفیق دیکڑوی کسیلی باتیں سن کر میرے ذہن میں ابھرا ذرا نم ہو تو مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ اللہ ملک کی حفاظت فرمائے رہنمائوں کو اللہ ہدایت دے وہ اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں اور ایمانداری سے ملک ،قوم کیلئے صرف کریں تاکہ ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو لوٹ کھسوٹ بہت ہو چکی اب ہوش میں آنے اور سنبھلنے کا وقت ہے ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔