کالم

پہلا مکا۔۔۔!

اللہ رب العزت نے تیرہ لاکھ مخلوقات پیدا کیے ،جس میں سے صرف ایک کو اشرف الخلوق کا درجہ عطا کیا،انسان کو اشرف الخلوق کے اعزاز اور صفات سے نوازا۔اسی نسبت سے خاکسار انسان کا احترام کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔اسی جذبے سے خاکسار جنگ و جدل اور لڑائی جھگڑے سے سخت نفرت کرتا ہے کیونکہ جنگوں اور لڑائیوں سے انسان کا نقصان ہوتا ہے۔اس لیے خاکسارمحبت اور انسانیت کے پیام کو پسند کرتا ہے اور اسی پیغام کو اپنی حیثیت اور سکت کے مطابق پھیلاتاہے ۔اسلام محبت کا پیغام دیتا ہے لیکن اپنے دفاع کا حق بھی دیتا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دفاعی جنگیں لڑیں، جنگوں میں بیماروں ، بزرگوں، بچوں، عورتوں، پھل دار درختوں ، فصلوں اور وہ جو جنگ نہیں لڑتے ہیں، ان کو گزند پہنچانے سے ممانعت کی ہے۔رحلت کے وقت حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پر دیے جلانے کےلئے تیل نہیں تھا لیکن دیواروں پر نو تلواریںلٹک رہی تھیں ۔عصر حاضر میں مسلمانوں نے دفاع کرنا چھوڑا دیا ،اس لئے "نتو خیرو ” بھی ان کو نچوا رہے ہیں۔”اگر کوئی لڑائی ضروری ہوجائے تو پھر پہلا مکا تمہارا ہونا چاہیے۔” یہ لینن گارڈ کی گلیوں میںاپنے سے بڑوں اور طاقتوروں سے لڑنے والے کے الفاظ ہیں۔ان الفاظ کے موجد7 اکتوبر1952ءکو لینن گارڈ موجودہ نام سینٹ پیٹر زبرگ میں پیدا ہوئے۔اس نے لینن گارڈ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی،اس نے "کے جی بی” (کومیتیت گوسودارستوینوی بیزوپاسنوستی) جوائن کیا۔ انھوں نے سولہ سال "کے جی بی ” میں بطور انٹیلی جینس آفیسر کے طور پر کام کیا ،لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے ۔( واضح ہوکہ "کے جی بی” سابقہ سوویت یونین کی انٹیلی جینس ایجنسی کا ادارہ ہے جس کو20 ستمبر 1917ءمیں قائم کیا تھا) ۔ 1991ءمیں "کے جی بی” سے سبکدوش ہوئے، اورسیاست کے میدان میں قدم رکھا۔آپ 1996ءمیں صدر بورسن یلسن کی انتظامیہ میں شمولیت پر سینٹ پیٹرزبرگ ( لینن گارڈ) سے ماسکو چلے گئے، فیڈرل سیکیورٹی سروس کے ڈائریکٹر اور سیکرٹری بھی رہے۔ صدر بورسن یلسن کے مستفعی ہونے کے بعد آپ قائم مقام صدر بن گئے اور مختصر عرصے میں مکمل صدر بن گئے اور2004ءمیں دوبارہ صدر منتخب ہوئے ۔ چونکہ آپ آئینی طور پر دو مرتبہ مسلسل صدر بن سکتے تھے تو آپ2008ءمیں وزیراعظم بن گئے اور 2012ءمیں پھر صدر بن گئے اور2018ءمیں ایک بار پھرصدر بن گئے۔2021ءمیں ایک ریفرنڈم کےلئے آئین میںترمیم کی،جس سے دوبارہ صدر بننے کی اجازت مل گئی۔2024ءمیں 87فی صد ووٹ لیکر پانچویں بار روس کے صدر بن گئے ہیں، آپ نے بالکل درست پہچان لیا کہ یہ ہیں روس کے صدر” ولادیمیر پوتن ” ۔ ہم روسی صدر ولادیمیر پوتن کو شاندار کامیابی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور نیک تمناﺅں کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہم روسی عوام ،پاکستان میں روسی سفیر، روسی قونصل جنرلز، سفارت خانہ اسلام آباد اور قونصل خانوں کے عملے اوردیگر روسی شہری جو پاکستان میں مقیم میں سب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔ پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات یکم مئی 1948ءکوقائم ہوئے، اس تعلقات میں نشیب وفراز آئے لیکن سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ تقریباً 76 برس بعد بھی پاک روس تعلقات قائم و دوائم ہیںاور متعدد شعبہ جات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور معاونت کررہے ہیں۔پاکستان روس تعلقات کی علامت اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے1973ءمیں رکھا تھا اور مکمل ہونے پر جنرل ضیاءالحق نے سوویت یونین کے نمائندوں کی موجودگی میں15 جنوری1985ءکو افتتاح کیا تھا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کراچی اسٹیل ملز کو روس کے تعاون سے مکمل طور پر نجی شعبے کو دینا چاہیے اورکالاباغ کے قریب چاپری میں لوہے اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں، یہاں پر نجی شعبے کے ذریعے سیٹل مل ناگزیر ہے ، روس کو یہاں پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے 1999 ءمیں کریملن کا دورہ کیا تھا۔ اپریل 2007ءمیں روسی وزیراعظم میخائل فردکوف نے پاکستان کا دورہ کیا اورصدر آصف علی زرداری نے2011ءمیں روس کا دورہ کیا ۔ 2012ءمیںجنرل اشفاق کیانی نے روس کا دورہ کیا اور اگلے سال 2013ءمیںروسی بری افواج کے کمانڈر انچیف جنرل ولادی میر وی چرکن نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ جنرل راحیل شریف نے جولائی2015ءمیں روس کا دورہ کیا۔وزیراعظم عمران خان نے 2022ءمیں یو کرین بحران کے باوجود روس کا دورہ کیا اور روس کے صدر پوتن سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات کو وسعت دینے اور مستحکم کرنے میںسب نے اپنا کردار اداکیا۔ پاکستان اور روس کے درمیان تجارتی حجم400 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، اس میں اضافے کی اشد ضرورت ہے ۔روس ، چین ، افغانستان ، ایران، بھارت، بنگلہ دیش اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر بزنس ٹو بزنس بارٹر ٹریڈ میکانزم قائم کرے، مذکورہ ممالک کو چاہیے کہ وہ آپس میں اختلافات ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کریں اور ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دہرانے کی بجائے بزنس پر فوکس کریں اور اقتصادی راہداری علاقائی رابطوں کا ایک فریم ورک بنائیں ۔ پاکستان اور بھارت کو اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیے اور استوار تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ان سب ممالک کو پاکستان چین کے طرح دوستانہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور یہ تعلقات ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے گہرے ہوں، ان تعلقات کے نتائج دور رس ہونگے۔پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اوروزیراعظم پاکستان شہباز شریف ہمسایوں سمیت تمام ممالک کے ساتھ استوار تعلقات، اچھے روابط ،تجارت اور انسان دوست اقتصادی پالیسی کو ترجیج دیتے ہیں۔صدر آصف علی زرداری روس کے صدر پوتن کو دورہ پاکستان کی دعوت دیں ، پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف بھی روس کا دورہ کریں۔ پاکستان دنیا کے سبھی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں اور تجارت کریں۔پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بھی بہترین رکھیں اور تجارت کریں۔قارئین کرام! ضرورت اس امر کی ہے کہ اب دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا چاہیے، دنیا کے ممالک کو آپس میں جنگ نہیں بلکہ تجارت کرنی چاہیے۔روس ، چین ، افغانستان ، ایران، بھارت، بنگلہ دیش اور وسطی ایشیائی ممالک سعی کریں کہ وہ مثبت سوچ اور نئی جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھیں اور انسانیت کی خدمت کریں، نفرت کو ©”پہلا مکا©” دیں اور دنیا کےلئے رول ماڈل بنیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے