یہ امر قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا کا تیزی سے فروغ جہاں عوام کو اطلاعات تک فوری رسائی فراہم کرتا ہے، وہیں جھوٹی خبروں، غلط معلومات، اور پروپیگنڈے کے پھیلا¶ میں بھی اضافے کا باعث بنا ہے۔ اس تناظر میں حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 منظور کیا ہے، جس میں جھوٹی خبروں کے پھیلا¶ پر سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اس بل کے مطابق، جھوٹی خبروں پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اس میں عدلیہ اور فوج کے خلاف جھوٹے الزامات، ہتک عزت، اور بلیک میلنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں ایک خصوصی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل 90 روز میں مقدمات نمٹانے کا پابند ہوگا اور فیصلے کے خلاف 60 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی، جبکہ عدالتوں میں سماعت مکمل کرنے کے لیے 30 دن کی مدت تجویز کی گئی ہے۔ مبصرین کے مطابق دنیا بھر میں فیک نیوز ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، اور پاکستان بھی اس چیلنج سے مستثنیٰ نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جھوٹی خبریں معاشرتی انتشار، اداروں پر عوامی اعتماد میں کمی، اور قومی سلامتی کے خطرات کا باعث بنتی ہیں۔ خاص طور پر، سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کے معلومات کو شیئر کرنا ایک عام رجحان بن چکا ہے، جو بعض اوقات ملک دشمن عناصر کے لیے پروپیگنڈے کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ کچھ حلقے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار پر قدغن قرار دے رہے ہیں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا مادر پدر آزادی کو آزادی اظہار کہا جا سکتا ہے؟ کسے معلوم نہےں کہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں آزادی اظہار کے نام پر ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے، بلیک میلنگ، اور ہتک عزت کی اجازت نہیں دی جاتی۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستان میں بھی اظہارِ رائے کی آزادی کو آئین کے تحت بلاشبہ تحفظ حاصل ہے، مگر اس کی حدود متعین ہیں تاکہ معاشرے میں بدامنی اور بے یقینی کی فضا پیدا نہ ہو۔سوشل میڈیا نے عوام کو براہِ راست اطلاعات تک رسائی فراہم کی ہے، مگر اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص بغیر کسی تصدیق کے خبر شیئر کر سکتا ہے، جو اکثروقات ملک میں افرا تفری اور غیر یقینی صورت حال پیدا کر سکتی ہے۔
کسے معلوم نہےں کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں متعدد مواقع پر جھوٹی خبروں کی وجہ سے غیر ضروری خوف و ہراس پھیلایا گیا۔ مثال کے طور پر، بعض جھوٹی خبروں کی بنیاد پر عدلیہ اور فوج کو نشانہ بنایا گیا، جس سے ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوا۔البتہ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس بل کو ماہرین کی رائے شامل کرنے کے بعد اسمبلی میں لایا جانا چاہیے تھا۔ لیکن جب مسئلہ واضح ہو، جھوٹی خبروں کے اثرات سب کے سامنے ہوں، اور ملک کے اداروں کو منظم پروپیگنڈے کا سامنا ہو، تو اس پر مزید تاخیر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ماہرین کے بقول کوئی بھی قانون بناتے وقت عوامی مفاد کو مدنظر رکھا جاتا ہے، اور اس بل کا بنیادی مقصد بھی جھوٹی خبروں کی روک تھام ہے، نہ کہ کسی کی آزادی سلب کرنا۔یاد رہے کہ جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے لیے تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جو نقصان جھوٹی خبروں کی وجہ سے ملک اور اس کے اداروں کو پہنچا ہے، اس کے مقابلے میں یہ سزا بہت کم ہے۔یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ جھوٹی خبروں کی بنیاد پر افراد کی ساکھ تباہ کرنا، ریاستی اداروں کو کمزور کرنا، اور عوام میں بے اعتمادی پیدا کرنا ایک طرح سے دہشت گردی کے مترادف ہے اس لیے، سزا کو مزید سخت کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ کسی کو بے بنیاد پروپیگنڈا پھیلانے کی ہمت نہ ہو۔مبصرین کے مطابق اگر حکومت عوام اور ریاستی اداروں کو فیک نیوز سے محفوظ رکھنے کے لیے سنجیدہ ہے، تو اسے اس قانون پر عمل درآمد میں کسی دبا¶ کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے کیوں کہ قانون سازی کا مقصد معاشرتی بہتری ہوتا ہے، اور اگر حکومت کسی بیرونی یا اندرونی دبا¶ کے تحت پیچھے ہٹتی ہے، تو یہ ایک کمزوری سمجھی جائے گی۔یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ اسلام میں جھوٹ کو ایک انتہائی سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے اور قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ءکا مقصد جھوٹی خبروں، ہتک عزت، اور ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات کو روکنا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں مادر پدر آزادی کی اجازت نہیں دی جاتی، اور پاکستان کو بھی ایک مہذب ریاست کے طور پر ایسے قوانین کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے جو سچائی اور انصاف کو یقینی بنائیں۔ جھوٹی خبروں کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے، اس بل کو مخالفت برائے مخالفت کا نشانہ بنانے کے بجائے اس کی افادیت کو سمجھنا چاہیے۔جو لوگ ملک میں استحکام، ترقی، اور امن کے خواہاں ہیں، وہ جھوٹی خبروں کی روک تھام کے لیے اس بل کی حمایت کریں گے۔ آخر میں، جھوٹ صرف ایک معاشرتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، اخلاقی، اور قومی مسئلہ بھی ہے، اور اس پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین ناگزیر ہیں۔
کالم
پیکاایکٹ ۔ایک جائزہ
- by web desk
- فروری 2, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 198 Views
- 1 مہینہ ago