کالم

پی ٹی آئی۔انٹرا پارٹی الیکشن کی حقیقت

یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پرپی ٹی آئی پارلیمینٹیرین نے شدید رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پشاور میں پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی الیکشن کا ڈرامہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق پشاور میں پی ٹی آئی کا چند وکلا کے ذریعے انٹرا پارٹی الیکشن کا ناٹک اس وقت بالکل فلاپ ہو گیا جب تمام پی ٹی آئی ارکان نے اس ڈرامے میں بالکل شرکت نہ کی۔ اسی تناظر میں پی ٹی آئی پارلیمینٹیرین کے ترجمان ملک حبیب نور اورکزئی نے انٹرا پارٹی الیکشن پر کہا کہ خیبر پختونخواہ کے غیورعوام الیکشن کمیشن سے پرزور مطالبہ کرتے ہےں کہ یہ جعلی اور ناانصافی پر مبنی انتخابات کا فوری نوٹس لیں اور اس دھوکہ دہی اورفراڈ کو بے نقاب کریںاور یہ عوامی مطالبہ حق پر مبنی اور الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے تحت کیا جارہا ہے۔ہماری عدالتوں سے التماس ہے کہ معصوم اور محب وطن عوام کو مزید گمراہ نہ کیا جائے۔اسی ضمن میں یہ امر بھی انتہائی اہم ہے کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن میں ووٹرز لسٹ نہیں دی گئی حالانکہ اکبر ایس بابر کو مقابلہ کرنے کا پورا موقع دیا جانا چاہیے تھا۔سربراہ پلڈاٹ نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات اچھے طریقے سے ہوئے۔ان کا کہناتھا کہ عجلت میں الیکشن کرانا پی ٹی آئی کے حق میں نہیں، مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن متنازع ہیں سربراہ پلڈاٹ نے یہ بھی کہا کہ سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں شفافیت نظر نہیں آتی جبکہ سیاسی جماعتیں ملک میں فری اینڈ فیئر انتخابات کی باتیں کرتی ہیں۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ جس طریقے سے پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین کا انتخاب عمل میںآیا ہے اسے کسی بھی طور شفاف قر ار دینا مشکل ہی نہےں بلکہ شائد ناممکن ہے۔ ایسے میں توقع کی جانی چاہےے کہ لیکشن کمیشن پاکستان اس معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا بروقت نوٹس لے گا۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان 2021تک پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ رہے اور انہوں پی پی کے ٹکٹ پر ہی انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔غالبا یہی وجہ ہے کہ تقریبا سبھی پارٹیوں بشمول ن لیگ ، پی پی نے اس انتخابی عمل کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔ دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی سمیت 8افراد کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ کسے معلوم نہےں کہ القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹا¶ن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ سابقہ اتحادی حکومت نے تب یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ ‘بحریہ ٹاون کی جو 190ملین پا¶نڈ تقریبا 70 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹا¶ن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کی گئی۔سابقہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹا¶ن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاون اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔جون 2022 میں اتحادی حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاون کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔بہر کیف غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ موجودہ حکومت تما م سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرپشن کے اس بڑے معاملے کو اس کی منطقی انجام تک پہنچائے گی تاکہ وطن عزیز میں کر پشن کے بڑتے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے