تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جی ڈی اے، اے این پی کے بعد مولانا فضل الرحمن نے بھی انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے ۔ احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں، پہلے ہی انتخابی نتائج مسترد کرچکی ہیں۔مولانا فضل الرحمن میدان سیاست کے، سب سے شاطر کھلاڑی ہیں ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان 2000 میں قلمکار کے سوال کے جواب میں کہا تھا۔یہ مولویوں میں سب سے سمجھدار ہے۔نوابزادہ کی 2002 میں وفات پر، نوابزادہ منصور علی خان نے کہا کہ ابا جی زندہ ہوتے تہ یہ تسلیم کرلیتے کہ سیاستدانوں میں بھی سب سے زیادہ سمجھدار مولانا ہی ہیں۔2008 اپریل کی بات ہے۔ ایف ٹین اسلام آباد زرداری ہاﺅس کے باہر، رات دو بجے، ہم پانچ صحافی کھڑے تھے۔ امین فہیم کا پتا کٹ چکا تھا ۔ گیلانی کا نام ابھی اناﺅنس نہیں ہوا تھا ۔ اچانک زرداری مولانا کو باہر چھوڑنے آئے۔ ہمیں دیکھا تو بلا لیا۔ قلمکار نے ان سے کہا کہ اگر آپ کو وزارت عظمی کا امیدوار نہیں مل رہا تو، آپ مولانا صاحب کو وزیر اعظم کیوں نہیں بنا دیتے۔ زرداری اور مولانا فضل الرحمن،کے منہ سے فلک شگاف قہقہہ برآمد ہوا۔ آصف زرداری نے قلم کار کے کاندھے کو پانچ، چھ بار، تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ نوجوان تم نے مجھے اتنا سادھ سمجھ رکھا ہے۔ میں مولانا کو وزیراعظم بنا تو دوں، ان سے وزارت عظمیٰ واپس کون لے گا۔آصف زرداری کے ذہن میں اس وقت بھی تھا کہ میں نے وزارت عظمیٰ، کسی گستاخی یا حکم عدولی پر واپس بھی لینی ہے اور پھر انھوں نے وزارت عظمیٰ گیلانی سے واپس لی۔ سپریم کورٹ نے جس گستاخی میں یوسف رضا گیلانی کو حلال کیا۔ اسی میں راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ نے چھیڑا بھی نہیں ۔ اس پر حافظ حسین احمد نے دوران مقدمہ کمال بیان دیا کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نااہل نہیں ہونگے کیونکہ آصف زرداری یوسف رضا گیلانی کی قربانی چاہتے تھے۔جبکہ پرویز اشرف کو بچانا چاہتے ہیں۔ یہی مولانا فضل الرحمن نے جنھوں نے نوابزادہ نصر اللہ خان کی مدد سے 2002 میں وزارت عظمیٰ کا الیکشن لڑا۔ دونوں نے مشرف اسٹیبلشمنٹ کو لمبا ڈال دیا تھا۔ پھر محترمہ کی رضا مندی سے پیپلز پارٹی سے پٹریاٹ بنے ۔ 17لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلے گئے۔ ایم ایم اے سے امیر مقام لوٹے ہوئے تھے ۔ جس پر حافظ حسین احمد نے صحافی کے طنزیہ سوال پر پیپلز پارٹی والوں کو کہا کہ ہمارے تو ایک امیر مقام نے امیر اور مقام بدلا ہے۔ ان کے تو 17لوگ امیر اور مقام بدل گئے ہیں ۔ پھر بھی نمبر گیم پوری نہیں ہورہی تھی۔ سادہ اکثریت کا 172واں ووٹ ، ظفراللہ جمالی مرحوم کو مولانا اعظم طارق مرحوم نے دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اتنے لچک دار ہیں کہ وہ وزارت عظمیٰ کا راستہ ہموار کرنے کےلئے،امریکی سفارتخانے جاپہنچے تھے۔جیسے انھوں نے آج پی ٹی آئی کے حوالے سے سیاسی موقف لیا ہے کہ ان سے ہماری جسمانی نہیں، ذہنی لڑائی ہے۔ وہ بھی ایک اللہ کے ماننے والے ہیں۔ ہم بھی ایک اللہ کے ماننے والے ہیں۔ بات چیت ہوسکتی ہے۔مولانا نے ایک ونڈو اوپن کی ہے۔ مگر سیاسی حرکیات سے پیدل، پی ٹی آئی کی جانب سے اس پر ابھی تک جواب نہیں آیا تھا۔ وگرنہ یہ وقت ایک محتاط سیاست کا تھا۔ مولانا نے، انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے۔ الیکشن کمیشن کو کمال لتاڑا ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ کہہ کر آﺅٹ کلاس کردیا ہے کہ اگر وہ سیاست کریں گے تو ہم بھی ان سے سیاسی زبان میں بات کریں گے۔ وہ سیاست نہیں کریں گے تو سر، آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ ان کی پریس کانفرنس کا سب سے خوفناک جملہ یہ تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں الیکشن، شفاف اور منصفانہ ہے تو قوم نے آپ کا نو مئی کا بیانیہ مسترد کردیا ہے۔انھوں نے نواز شریف کو اپوزیشن میں اپنے ساتھ بیٹھنے کا مشورہ دیکر، ن لیگ کی بیچ چوراہے میں شلوار اتار کر ازار بند کھینچ لیا ہے۔ بعدازاںانھوں نے عاصمہ شیرازی کے ساتھ انٹرویو میں نواز شریف کو لاڈلا تک کہہ دیا اور الیکشن میں اربوں روپے چلنے کا کھلے عام اعلان بھی کیا۔مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ میاں صاحب کو اسٹبلشمنٹ نے بتا دیا ہے کہ آپ کا یہ اصل قد یہ ہے، سیٹ ہم نے آپ کو جتوا دی ہے۔ آپ نہیں جیتے۔۔ لاڈلے اب بڑھ گئے ہیں، لاڈلے بڑھیں گے تو لالے بھی پڑیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دستبردار ہو جائے یہ واحد حل ہے ۔ میں چیلنج کرتا ہوں ایک ایک سیٹ پر سودے بازی ہوئی ہے ۔ مولانا نے محمود اچکزئی کی سیٹ پر ن لیگ کے پانچویں نمبر کے امیدوار کو جتوانے اور اس کے الیکشن نہ لڑنے کے باوجود جتوانے کی بات کرکے خودکو بلوچستان میں کمال طریقے سے بیلنس کیا ہے ۔ انھوں نے بھی تین افغان شہریوں کے الیکشن کی جیت کی انتہائی تشویش ناک تصدیق کی ہے۔ اے این پی پہلے ہی کھلے بندوں یہ بات کرچکی ہے ۔ مولانا کا یہ موقف بھی بہت معنی خیز ہے کہ 2024کے انتخابات میں 2018 کے الیکشن دھاندلی کے ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے شفاف انتخابات کے بیان کو مسترد کردیا۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنی اہمیت کھودی ہے۔ فیصلے پارلیمان میں نہیں، میدان میں ہونگے ۔پارلیمان میں شرکت ، احتجاج کے ساتھ ہوگی ۔وہ پرویز مشرف کے صدارتی الیکشن کی تین نومبر2007والی واردات، رند کے رند۔ رہے ۔ہاتھ سے جنت نہ گئی۔۔(جاری ہے)