کالم

پی ٹی ایم کی خطرناک سرگرمیاں

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں شدت پسندوں کے خلاف ‘ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے۔ باجوڑ میں مقامی عمائدین اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والا امن جرگہ ناکام ہوا، جس کے بعد یہ اقدام اٹھایا گیا۔ سرکاری ذرائع نے علاقے میں 800 کے قریب دہشتگردوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔جرگے نے شدت پسندوں سے علاقہ چھوڑنے سمیت تین اہم مطالبات کیے تھے، تاہم فتنة الخوارج (ٹی ٹی پی) نے علاقہ خالی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر وفاقی حکومت کی جانب سی پابندی عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ یہ تنظیم ‘ریاست مخالف سرگرمیوں’ میں ملوث ہے۔وفاقی حکومت نے نہ صرف پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا ہے بلکہ اس تنظیم سے وابستہ افراد کے نام فورتھ شیڈول میں بھی ڈال دیے ہیں۔پی ٹی ایم کی بنیاد 2018 میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کی کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد رکھی گئی تھی۔ اس کے یہ تنظیم متعدد مرتبہ پاکستان بھر میں دھرنوں اور جلسوں کا انعقاد کرتی رہی ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق، باجوڑ کی تحصیل ماموند کے دو علاقوں میں تقریباً 300 دہشتگرد موجود ہیں جبکہ خیبر میں بھی 350 سے زائد شدت پسند سرگرم ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد سے زیادہ افغان باشندے ہیں۔ ماموند کی آبادی تین لاکھ سے زائد ہے، جبکہ اب تک 40 ہزار سے زیادہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں۔مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے باجوڑ امن جرگہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ارکان کے درمیان جاری مذاکرات کی حمایت کا اعلان کردیا، جس کا مقصد شدت پسندوں کو پْرامن طور پر ضلع چھوڑنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اجلاس کے مقصد اور امن کے فروغ میں علما کے اہم کردار پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ علما کو معاشرے میں ان کی مذہبی تعلیمات کے سبب احترام حاصل ہے اور وہ مؤثر اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اجلاس میں دہشت گردوں نے جرگہ کے 2 نکاتی مطالبے پر اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے ایک دن کی مہلت طلب کی تھی، انہیں کہا گیا تھا کہ (یا تو افغانستان واپس چلے جائیں یا اگر لڑنا چاہتے ہیں تو پہاڑوں کا رخ کریں) ان کی موجودگی مقامی لوگوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔پی ٹی ایم کے کالعدم ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج) اور افغان طالبان سے رابطے ہیں، دہشت گرد تنظیموں سے رابطے کی بنیاد پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کو بیرونی فنڈنگ مل رہی ہے اور ان کا بیانیہ پاکستان مخالف ہے، پی ٹی ایم سے منسلک افغان شہریوں نے پاکستانی سفارتخانے پر حملہ کیا اور پرچم کی بیحرمتی کی۔ پی ٹی ایم کو کسی بھی طرح کا تعاون فراہم کرنا ممنوع ہے، تنظیم کے دہشت گرد گروپوں سے رابطے اور فنڈنگ کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ کسی بھی تنظیم کو ثبوتوں کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا جاتا ہے، یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کی فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ سفارتخانوں سے جھنڈے اتارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، پی ٹی ایم نے پاکستان کے جھنڈے کو نذر آتش کیا۔ نظریہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں، پی ٹی ایم کے ساتھ رابطے کرنے والی تنظیموں کیلیے یہ وارننگ ہے۔کچھ لوگ ایسے احتجاج سے اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں۔ ان میں ایک منظور پشتین بھی ہیں۔ منظوراحمد پشتین کا نام دنیا اور میڈیا کے سامنے تب آنا شروع ہوا جب اْنھوں نے 26 فروری 2018 ء کو خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر ڈیراسماعیل خان سے احتجاجی جلوس کی قیادت شروع کی اور مختلف شہروں بنوں، کوہاٹ، درہ آدم خیل، پشاور،مردان اور صوابی سے ہوتا ہواسلام آباد پریس کلب کے سامنے پہلے سے موجود نقیب اللہ محسود کے ماروائے عدالت قتل کے خلاف احتجاجی کیمپ پہنچ کر دھرنا شروع کردیا۔لنڈی کوتل میں پشتون تحفظ مومنٹ کے زیر اہتمام جلسہ میں مقررین نے کہاکہ یہ غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کے کوئی سیاسی عزائم نہیں اور نہ ہی انتخابات میں حصہ لینامقصد ہے۔ تحریک کا مقصد لاپتہ افراد کی بازیابی ،جگہ جگہ فورسز کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ اورروزگار کی فراہمی ہے اور واہگہ بارڈر جیسا سہولیات طورخم اور چمن میں دی جائے اورطورخم سے این ایل سی کا خاتمہ کیا جائے۔ علاقے میں سیکورٹی فورسز کی جگہ یہاں کے علاقوں میں خاصہ دار فورس اور لیویز فورس کے جوان تعینات کیے جائیں اور طورخم بارڈر پر عوام کیلئے روزگا ر کے مواقع پیدا کی جائے نہ کہ روزگار چھیننا جائے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں ہزاروں پشتون مارے گئے جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔ قبائل دہشت گرد نہیں ہیں قبائل محب وطن ہیں اس لئے حکومت قبائلی عوام کے ساتھ نرم سلوک کریں اور ان کو حقوق دی جائے۔سوال یہ ہے کہ منظور پشتین کی ڈور کون ہلا رہا ہے؟ کوئی پاکستانی سرزمین پر کسی کو سبز ہلالی پرچم لہرانے سے کیسے روک سکتا ہے۔ اس سارے عمل سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پشتون تحفظ موومنٹ کا ایجنڈا ملک دشمنی پر مبنی ہے۔مختلف قبائل یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ملک کو لسانیت نہیں پاکستانیت کی ضرورت ہے۔ پختونوں کے حقوق کے نام پر پاک فوج کے خلاف نعرے لگانے والے بھارتی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ پاک فوج نے قبائلیوں اور پختونوں کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ بھارت پاک فوج کی کردار کشی کے لئے پیسہ تقسیم کر رہا ہے۔اس سے قبل دشمن اپنی چالوں میں ناکام ہوا اور اب پھر سے ویسی ہی چالوں کیساتھ اب پی ٹی ایم کے ذریعے پشتون بیلٹ کو تباہ کرنا چاہ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے