کالم

چائلڈ لیبر۔۔۔!

پاکستان اور دیگر پسماندہ ممالک میںچھوٹے اور معصوم بچوں کو ہوٹلوں، دکانوں ، فیکٹریوں، ورکشاپوں، بھٹوں، کھیتوںسمیت مختلف مقامات پر کام کرتے ہوئے دیکھا ہوگا گو کہ پندرہ سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کرانا بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔کیاآپ نے یہ نہیں سوچا کہ یہ بچے سکول کیوں نہیں گئے؟پاکستان میں دو کروڑباسٹھ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، ان میں سے ایک کروڑ پچاس لاکھ بچے کام کرتے ہیں۔ ہر ماں اور باپ کا دل ہوتا ہے کہ اُن کا بیٹا یا بیٹی سکول جائے۔کون چاہتا ہے کہ اُن کے بچے کم عمر میںہوٹلوں، دکانوں ، فیکٹریوں، کھیتوں یا دوسروں کے گھروں میں کام کاج یعنی مزدوری کریں۔پاکستان میں پانچ سال سے دس سال کی عمر تک چودہ ملین بچے مختلف شعبہ جات میں کام کررہے ہیں۔
20نومبر1981ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کی منظور ی دی تھی، اس معاہدے پر 190 ممالک نے دستخط کیے ،جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔پاکستان نے12 نومبر1990ءکوبچوں کے حقوق کنونشن کی توثیق کی تھی۔ انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے 2002 ءمیںچائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن 12 جون کو مقرر کیا، ہر سال بارہ جون کو دنیا بھر میں چائلڈ لیبر ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس کے بعد اللہ اللہ خیر سلا۔ صرف چائلڈ لیبر ڈے منانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ بچوں کے مسائل جاننا اور ان کےلئے عملی طور پربہت کچھ کرنا چاہیے۔ کیا چائلڈ لیبر پر پابندی سے یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا؟کیا صرف قانون سازی سے چائلڈ لیبر ختم ہوجائے گی؟ چائلڈ لیبر پرپابندی یاقانون سازی اچھی بات ہے لیکن صرف قانون سازی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ چائلڈ لیبر کے اسباب اورروک تھام کےلئے زمینی حقائق کو سمجھنا اورجاننا ضروری ہے۔جب تک اسباب کا سدباب نہیں کیا جاتا ہے تو ویسے خالی خُولی قانون سازی یا پابندی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ کیا بجلی، گیس،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کرنے والوں نے کھبی دل و دماغ سے ذرا بھی سوچا ہے کہ اسکے معاشرے اور ملک پر کیا اثرات پڑیں گے؟ وہ تو محض یہ سوچتے ہیں کہ اتنا اضافہ کرنے سے اتنے ارب کرنسی آجائے گی بس۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے معاشرے اور ملک پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔پاکستان میں 2018 ءتک ستر فی صد آبادی خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی تھی لیکن اس کے بعد حالات مزید ابتر ہوچکے ہیں، لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں، دال روٹی پورا کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے، بلکہ اب غریب لوگ نہ دال خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سبزی۔ حالانکہ زندگی کےلئے صرف روٹی ضروری نہیں بلکہ اور چیزوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔اللہ کسی دشمن کو بھی بیمار نہ کرے، اگر خدانخواستہ کوئی بیمار ہوجائے تو سرکاری ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور پرائےویٹ ہسپتالوں سے علاج کرانا غریب عوام کے بس سے باہر ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق میٹرک تک تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان میں تعلیم سمیت ہر چیز بہت مہنگی ہے کیونکہ لوگوں کی قوت خرید کمزور ہے۔ توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی ، غربت اور افلاس میں اضافہ ہوتا ہے۔ چائلڈ لیبر کا اہم سبب مہنگائی، غربت اور افلاس ہے ، کیاکبھی امیر والدین کے پانچ سال سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچے کو ہوٹل ، ورکشاپ ،فیکٹری اور کھیتوں میں کام کرتے دیکھاہے؟ہوٹلوں،دکانوں،ور کشاپوں، فیکٹریوں اور کھیتوں میں یتیم بچے اورغریبوں کے بچے کام کرتے ہیں۔ مدرسوں میں یتیم بچے یا غریب بچے پڑھتے ہیں لیکن بعض مدرسوں کے اساتذہ بچوں کو سخت سزائیں دیتے ہیں، پھر کچھ بچے راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔اس لئے سرکاری سکولوں میں سزا پر پابندی لگائی گئی ہے اور اب سرکاری سکولوں کا سلوگن”مار نہیں پیار“ ہے۔مدرسوں اور سکولوں کے بچوں کوہنر بھی سکھانے چاہئیں تاکہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگار نہ ہوں۔چائلڈ لیبر کا سب سے اہم سبب ملک میں بہت زیادہ غربت ہے۔ بچوں کو غلام بنانے،گھریلو ملازم رکھنے، منشیات کی سمگلنگ،خود کش حملوں، دہشت گردی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں پر ظلم وستم ،بچوں سے بدفعلی، جسم فروشی یا دیگر مقاصد کےلئے استعمال کرنے سے بچوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور بسااوقات اُن کی زندگی بھی تمام ہوجاتی ہے۔ کم عمر میں مزدوری کے باعث ملک اور معاشرے کی سماجی، ثقافتی اور اقتصادی ترقی پر منفی اثرات ہوتے ہیں۔چائلڈ لیبر کو ختم یا کم کرنے کےلئے اشد ضروری ہے کہ (الف )پاکستان بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کے دیگر ذرائع کی قیمتیں کم سے کم ہوں تاکہ غربت اور مہنگائی کو کنٹرول کیا جاسکے۔ (ب)حکومت چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرے۔(ج) حکومت بے نظیر کارڈ وغیرہ کی بجائے ایسی سرگرمیوں کا اہتمام کریں یا اقدامات اٹھائیں جس سے بے روزگاری ختم کرنے اور لوگوں کی آمدن میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ حکومت زراعت، صنعت اور سیاحت کے شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرے، (د) جن والدین کے بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، ان افراد کو مالی امداد دینے یا بھکاری بنانے کی بجائے ان کے والدین کو مناسب کام پر لگانے یا ان کی آمدن میں اضافہ کرنے کےلئے معاونت اور تربیت کی جائے۔(ر)پاکستان میںایک کروڑ اور پچاس لاکھ بچے کام کررہے ہیں، ان کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جائیں، اِس میں خصوصی طور پراین جی اوز حکومت کی معاونت کرے(1)وہ تمام بچے جو ہوٹلوں ، دکانوں، ورکشاپوں، فیکٹریوں اورکھیتوں وغیرہ میں کام کرتے ہیں، ان کو کام سے بدخل نہ کیا جائے بلکہ ان کو رجسٹرڈ کیا جائے۔کیونکہ ان کو بدخل کیا گیا تو ممکن ہے کہ وہ منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہوجائیں۔
(2)ان ہوٹلوں ، دکانداروں ، صنعت کاروں اور زمین داروں کو پابند کیا جائے کہ بچوں سے ان کی حیثیت اور طاقت کے مطابق کام لیا جائے۔بچوں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دیا جائے ۔(3) ان بچوں کے لئے این جی اوز شہروں اور دیہاتوں میں کچھ فاصلے پرتربیتی سنٹرز بنائے جائیں ، جس میں ان مزدور بچوں کو روزانہ ایک یا دو گھنٹے دلچسپ انداز میں لکھنا پڑھنا ، حساب کتاب اور ہنر سکھائے جائیں، اس سے بچے خودکفیل اور اچھے شہری بن سکتے ہیں۔بچوں کا مکمل ریکارڈ ہوگا،بچے دہشت گردی، خودکشی اور دیگر غلط کاموں کیلئے استعمال نہیں ہونگے۔پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ بچوں کی زندگی محفوظ اور خوشحال ہوجائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے