کالم

چمکی ذرا سی دھوپ تو سائے مےں آ گئے

منظر دلخراش اور مےدان جنگ کا غماز تھا ۔قانون کو کھلونا بنانے کے مناظر ٹی وی چےنلز پرپوری قوم دےکھ رہی تھی ۔لاہور زمان پارک مےں محصور عمران خان کی حفاظت پر مامور تحرےک انصاف اور پولےس مےں 24گھنٹوں سے زےادہ کا تصادم ،آنسو گےس ،پتھراﺅ نے لاہور کی مال روڈ سڑک کو اجاڑ کر رکھ دےا ۔آرائشی محرابوں اور ٹائلز کو اکھاڑ کر پتھراﺅ کےلئے استعمال کےا گےا ۔پولےس پر پٹرول بم پھےنکے گئے ۔وارڈنز کی گاڑےوں ،موٹر سائےکلوں اور چوکےوں کو جلا دےا گےا ۔پولےس کی 8گاڑےوں کو آگ لگا کر تباہ کر دےا گےا ۔2واٹر باﺅزر ،اےک بس اور کئی پرائےوےٹ گاڑےوں کو بھی آگ لگائی گئی ۔پتھراﺅ سے اسلام آباد پولےس کے ڈی آئی جی شہزاد بخاری ،لاہور کی اےس پی عمارہ ،شےخوپورہ کے ڈی پی اہ سمےت متعدد انسپکٹر،سب انسپکٹر ،33اہلکار ،آٹھ شہری اور پی ٹی آئی کے متعدد کارکن زخمی ہوئے ۔ہمارا خےال تھا تحرےک انصاف کے رہنما قانون اور اخلاق کے راہنما اصول اپنائےں گے اور تہذےب و شائستگی کے علم بردار بنےں گے لےکن ےہ شتر بے مہار روےہ ،قانون کو موم کی ناک بنانا اور رول آف لاءماننے کےلئے تےار ہی نہ ہونا صرف ان کی خواہش ہی نہےںتھی بلکہ انہوں نے عملاً اےسا کر دکھاےا ۔ان کے ورکر ہر گھڑی مرنے مارنے پر تلے بےٹھے ہےں ،قانون کے رکھوالوں سے بری طرح الجھنا ہی انہوں نے اپنا وطےرہ بنا لےا ہے اور عدل کی بجائے قوت سے غلبے کے تمنائی ہےں ۔ےہ قانون کو گھر کی باندی سمجھنے کی روش پر عمل پےرا ہو کر اسے بری طرح توڑنے مےں مصروف ہےں ۔ان کو پولےس ،کسی جج ےا عدلےہ کے فےصلے کی بھی پرواہ نہےں اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے بھی شاےد ان سے ہراساں اور خوف زدہ ہےں اور ان کے خلاف بھرپور کاروائی سے گرےزاں ہےں ۔انگرےز سےاستدان گرام وےل نے چار سو سال پہلے برطانوی پارلےمنٹ مےں کہا تھا کہ ضرورت کےلئے کوئی قانون نہےں ،بناوٹی ضرورت ،تخےلاتی مجبوری سب سے بڑے دھوکے ہےں اور اسے خدا کی مرضی ےا قدرت قرار دےنا اور قوانےن کو توڑنا سب سے بڑے دھوکے ہےں ۔ڈنڈے لہرانا ،گاڑےوں پر خشت باری اور کاری ضربےں لگا کر ان کے شےشوں کو چکنا چور ،باڈےوں کو زےروزبر اور ٹائروں کو پنکچر کرنا کےا قانون کی پاسداری ہے؟دراصل ےہ مقابلے پر آئے ہوئے ورکر قابل نفرت نہےں بلکہ وہ کردار قابل نفرت ہےں جو ورکروں مےں اس روےے کو پروان چڑھاتے اور ان کو اکساتے ہےں ۔کےا فتنہ برپا کرنا ،انصاف و قانون کا بری طرح خون کرنا درست عمل قرار دےا جا سکتا ہے ۔اس عمل سے تو ظلم و تشدد ننگا ہو کر ناچنے لگتا ہے ،صداقت کا گلا گھٹ جاتا ہے ،قانون شکنی اور اےذا رسانی کی فصل فراوانی سے ملتی ہے ۔گوےا زندگی کے پےمانے کو ہر پہلو سے چکنا چور کر دےا جاتا ہے ۔اےک رپورٹ کے مطابق اس ٹکراﺅ مےں گاڑےوں کے نقصان کا تخمےنہ ہی 2کروڑ روپے سے زےادہ کا لگاےا جا رہا ہے ۔اسلام آباد کی دو عدالتوں مےں عمران خان کی مسلسل عدم پےشی پر قانون کے مطابق ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کئے ۔اےک وارنٹ توشہ خانہ کےس مےں ،دوسرا اےک جج کو عمران خان کی دھمکےوں کے مقدموں مےں جاری کےا گےا ۔کسی عدالت کی طرف سے پےش ہونے کے حکم کی اعلانےہ عدم تعمےل جرم قرار پاتی ہے ۔عمران خان پہلی پےشےوں پر ہی عدالت مےں پےش ہو جاتے تو بات اس طرح آگے نہ بڑھتی ۔حکومت وقت تو بہر صورت انتخابات کا التوا چاہتی تھی ۔تحرےک انصاف کے رہنما عمران خان نے عدالتوں مےں حاضر ہونے سے دانستہ انحراف کر کے خود ہی حکومت کو مدد فراہم کی اور انتحابات کے التوا کے مقصد کو آسان بنانے کا موقع فراہم کےا ۔ےہ امر قابل افسوس ہے کہ خان صاحب کا سےاسی منشور کہ امےر و غرےب کو ےکساں انصاف کی فراہمی پر خود ہی عمل پےرا نہ ہو سکے اور طاقتور کو کٹہرے مےں لانے کےلئے دو ،ڈھائی دہائےوں تک جو تحرےک چلاتے رہے ،اب ان کی باری آئی تو اس کی نفی کرنے لگے ۔اسلام آباد مےں مرضی کی جگہ عدالت لگوا کر جوڈےشےل کمپلےکس پہنچے تو قانون کے احکامات کو ےکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان کے سب ہمراہی زبردستی عدالتی احاطوں مےں گھس کر عدالت کے اندر جانے کی کوشش کرنے لگے تو اسلام آباد پولےس کو مجبوراً آنسو گےس استعمال کر کے ان کو روکنا پڑا ۔ہم نے رےاستی رٹ کا اےسا تماشا کبھی نہےں دےکھا ۔ےہی کام الطاف حسےن اور لال مسجد والوں نے بھی کےا تھا لےکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہر باخبر شہری اس سے آگاہ ہے ۔دنےا بھر مےں سےاسی جدوجہد پر ےقےن رکھنے والے بے شمار رہنماﺅں نے قےدو بند کی صعوبتےں برداشت کےں ۔نےلسن منڈےلا جو مزاہمت کا استعارہ سمجھے جاتے ہےں نے 27برس جےل کاٹی۔ راقم چشم تصور سے 72سالہ بوڑھے سقراط کو دےکھ رہا ہے جو اےتھنز کے نوجوانوں کو سماج مےں رائج نظرےات اور ظالمانہ قوانےن سے متنبہ کرتا تھا جب اس کے دوست کرےٹو جو اےک دولت مند شخص تھا اسے جےل سے بھگانے کےلئے راضی کرنا چاہا تو اس نے تارےخی الفاظ کہے :”مےں اپنی رےاست کے قانون کو بدلنا چاہتا ہوں اسے توڑنا نہےں “اور بوڑھا سقراط زہر کا پےالہ پی کرہمےشہ کےلئے امر ہوگےا ۔ماضی مےں ہمارے ہاں بھی سےاستدان گرفتار ہوتے رہے ،عدالتوں مےں پےشےاں بھی بھگتتے رہے ۔ضےاءالحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ذولفقار علی بھٹو کو گرفتار کر کے طوےل عرصہ جےل مےں رکھنے کے بعد تختہ دار پر چڑھاےا گےا ۔انہوں نے اےک وقار ،عزم اور حوصلے کے ساتھ ان حالات کا سامنا کےا ۔بھٹو کی موت کے بعد ان کی بےٹی بے نظےر اور اہلےہ نصرت بھٹو نے استقامت کا بے مثال مظاہرہ کےا ۔گو راقم آصف علی زرداری اور مےاں نواز شرےف کے سخت ناقدےن مےں سے ہے ۔آصف علی زرداری 11سال تک کوئی شکوہ کےے بغےر جےل کی سلاخوں کے پےچھے ڈٹ کر کھڑے رہے اور ان کا بھرپور عہد شباب کا سرماےہ تھا ضائع ہو گےا اور اپنی جوانی کا سنہرا دور جےل کی نذر کر دےا ۔عدالت نے آصف علی زرداری کے بارے مےں ےہ آبزروےشن بھی دی کہ ”رےکارڈ کے مطابق اپےل کنندہ اپنی سزا کاٹ چکا ہے “اس کے باوجود وہ قےد کاٹتا رہا ۔ےہ امر حےرت زدہ کرتا تھا کہ مظلوم اور جوان ہونے کے باوجود اپنے ساتھ ہونے والی زےادتےوں کے رد عمل مےں نہ تو اس کے اندر کوئی تلخی پےدا ہوئی اور نہ شدت پسندی اور اسی استقامت کےلئے مجےد نظامی سے ”مرد حر “ کا خطاب پاےا ۔نواز شرےف اٹک قلعہ مےں قےد رہے ،ےوسف رضا گےلانی طوےل عرصہ پابند سلاسل رہے ۔لےڈر تو وہی ہوتا ہے جو حالات کا رخ پہچانتا ہے ،دوسروں سے زےادہ تکلےف سہتا ہے ،مصائب اور امتحانوں مےں ثابت قدم ،کنفےوژن مےں واضع اور خوف کا مقابلہ کرتا ہے ۔لےڈر تو دلےر ہوتے ہےں لےکن وہ کےسے لےڈر ہےں ۔بقول شاعر
اتنے ہی بس جری تھے حرےفان آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو سائے مےں آ گئے
نپولےن بونا پارٹ جو کہ فرانس کا اےک عظےم حکمران تھا ۔اےک جنگ مےں شکست کے بعد اسے پےرس کے قرےب اےک جزےرے مےں مقےد کر دےا گےا ۔کچھ عرصہ بعد فرانس کے چند نامور صحافی حکومت سے اجازت لےکر نپولےن بونا پارٹ سے ملاقات کےلئے جزےرے پر پہنچے ۔بارشوں کا موسم تھا ۔نپولےن کو جس کمرے مےں رکھا گےا تھا بارش سے اس کی چھت ٹپک رہی تھی اور وہ جس چارپائی پر بےٹھا ہوا تھا وہ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی اور وہ دےوارےں کائی سے بھری ہوئی تھےں ۔صحافےوں نے ےہ ماحول دےکھ کر نپولےن سے کہا کہ جناب آپ حکومت سے درخواست کےوں نہےں کرتے کہ وہ آپ کے قےام و طعام کو آرام دہ بنائے ۔عظےم نپولےن نے اس موقع پر ےہ خوبصورت الفاظ کہے کہ ”بادشاہ صرف حکم کرتے ہےں رحم کی بھےک نہےں مانگتے “۔معززقارئےن اس وقت ملک اےک امتحان و آزمائش سے دوچار ہے ۔اس صورت مےں ملک کسی محاذ آرائی کا متحمل نہےں ہو سکتا ۔سےاست مےں لہو گرمانے کا مردرپےش ہے ۔جمہورےت مےں ”مکالمہ“ کو بنےادی اہمےت حاصل ہے اور تمام مطالبات و مسائل مےز پر ہی حل ہونے کے متقاضی ہےں لےکن عمران خان صاحب جس دن سے لےلائے اقتدار سے جدا ہوئے ہےں انتہائی اضطراب ،بے قراری اور بے چےنی مےں ہےں ۔ ہجر اقتدار کے لمحات ان پر بہت بھاری نظر آتے ہےں دوسری طرف کرسی اقتدار کے مسند نشےن ہر حال مےں اقتدار پر متمکن رہنا چاہتے ہےں ۔ضد اور انا ہے کہ دونوں طرف پھنکار رہی ہے ۔ملک کے سےاسی افق پر دھند ہی دھند ہے ۔ عوام کسی کی فتح شکست سے قطع نظر ماےوسی کا شکار ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے