کالم

چوراں تے مور تے موراں تے ہور

حال ہی میں یہ خبر پھیلی کہ پاکستان سے باہر غیر قانونی طور پر یورپ اور دیگر ممالک جانے والوں کی کشتی سمندر میں ڈوب گئی اور کثیر تعداد میں پاکستانی مارے گئے کچھ بچ جانے والوں نے آکر بتایا کہ مزید رقم کےلئے اس دھندے میں ملوث افراد نے انہیں وہاں زدوکوب بھی کیا اور تشدد کے بعد سمندر میں پھینک دیا غیر ممالک میں ملازمت دلوانے کا بہانہ بنا کر اور سبز باغ دکھا کر ایسے افراد نے گجرات سیالکوٹ اور دیگر شہروں میں ٹریول ایجنٹ کے نام پر یہ کاروبار چلایا ہوا ہے جسمیں کرپشن کو ختم کرنے اورقوانین کے مطابق ایسے گھناونے کاروبار کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لینے کے لیے ایف آئی اے جیسے ادارے کے کچھ ملازمین بھی شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے دولت کمانے کی ہوس اس سرکاری اہلکاروں کے دل اور آنکھیں اندھی کر رکھی ہیں وہ ان غیر قانونی کام کرنے والوں کی نہ صرف سرپرستی کرتے ہیں بلکہ شیئر ہولڈر بھی ہیں افسوس اس بات پر ہے کہ سٹاف کےساتھ ساتھ افسران بھی شامل تھے وزیراعظم کی ہدایت پر جو انکوائری ڈی جی ایف آئی اے کو تقویض کی گئی پیش رفت تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے ادارے کے سربراہ کو بھی تبدیل کر دیا گیا مرنے والے تو واپس نہیں آئیں گے جن کے گھروں میں جوان بچوں کے جنازے اٹھے ہیں انکی دولت یہ دھوکہ باز کھا گئے۔ ڈی جی ایف آئی نے ان اہلکاروں کو ملازمت سے فارغ کر دیا بہت اچھا اقدام ہے لیکن کیا انہیں گرفتار کر کے مقدمات بنائے گئے یا نہیں عام لوگ تو ان حضرات کو جانتے بھی نہیں ان کا نیٹ ورک مضبوط ہوگا ادارے کےلئے یہ ضروری تھا کہ ان تمام افراد کی برخاستگی کے ساتھ تصویر بھی چھاپ دی جاتی تاکہ لوگوں کو ان کی پہچان ہو مجھے یقین ہے کچھ عرصہ بعد یہ لوگ ایف آئی اے کا نام لے کرپھر لوگوں کو ورغلائیں گے اور جھانسے دیکر پھر یہی سب کچھ کریں گے جو کچھ یہ اب تک کرتے چلے آئے ہیں بدقسمتی سے اہم ادارے اپنی منفی کارگردگی اور رشوت کے حصول میں نمایاں رہ کر اسے بدنام کر چکے ہیں اسی وجہ سے پولیس ایف آئی اے اور اسی طرح کے دوسرے ادارے بھی اپنی ساکھ کھو چکے ہیں ہمارے ہاں ایسا قانون ہی نہیں کہ معاشرے کی جڑیں اکھاڑنے والوں پر کاری ضرب لگائی جا سکے وقت کی ضرورت ہے ایسے لوگوں کو کوڑے لگا کرعبرتناک سزائیں دی جائیں مارشل لا میں اگر سیاستدانوں کو یہ سزا مل سکتی ہے تو ان درندوں کو کیوں نہیں یہ مٹھی بھر لوگ قانون سے آزاد اداروں کی آڑ میں دولت کماتے ہیں اور شکنجے میں نہیں آتے سالانہ رپورٹ ہر سرکاری اہلکار کی اچھی یا پھر بہت اچھی ہوتی ہے آپ ہر ایک کی اے سی آر نکال کر دیکھ لیں اسی کیٹگری میں فال کرتے ہیں ان کے اعمال سے نہ صرف ادارے بدنام ہوتے ہیں بلکہ حکومت وقت بھی تنقید کا نشانہ بنتی ہے ہر بندے کا یہی خواب ہے کہ دولت بے شمار ہو بڑا گھر بڑی گاڑی بنک بیلنس کے ساتھ پر تعیش زندگی ہو دولت کیسے کمائی کہاں سے آئی یہ کوئی پوچھنے والا نہ ہو سرکاری اداروں میں جن کا براہ راست تعلق پبلک سے ہے وہ اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور مال بانٹ کر سلسلہ چلاتے ہیں چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم اگر کہیں ہے تو وہ مردہ حالت میں کہیں پڑا رہتا ہے جب سے ایف آئی اے کا ادارہ قائم ہوا ہے اس وقت سے لے کر اب تک سالوں پر محیط یہ ٹائم آیا کہ اس ادارے نے کرپشن پر اپنے ہی ادارے کے افسران اور سٹاف کو ملازمت سے سبکدوش کیا۔ کیا اس سے ادارے نے اچھی نیک نامی کمائی ہے حکومت وقت کی زمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کی سہولتوں کے لیئے کام کرے اس وقت ملک پر قرض فور ٹائم زیادہ ہو چکا ہے ہر بندہ تقریبا تین لاکھ روپے کا مقروض ہے یہ عوام کی حالت ہے شب و روز گزر بسر کرنا مشکل ترین عمل بن چکا ہے آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں اس میں عوام کا قصور نہیں قانون اور ایسے حالات بنانے والے ذمہ دار ہیں عوامی نمایندوں نے اپنی تنخواہیں نہ مناسب ہونے کی وجہ سے پانچ لاکھ انیس ہزار بنا لی وزیر اس سے بھی زیادہ اور کبیر اس سے بھی زیادہ غریب ملک غریب قوم بیرون ملک قرض مانگ مانگ کر ملک چلانے والے قرض کی رقم دوسرے ممالک سے لے کر خوشیاں مناتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا ہےبعض ملک تو امداد نہیں دے رہے تھے ہم نے دلائل سے یہ جنگ جیتی بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈوب کے مر جاو ملک کا قرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی رہتا ہے اس ملک کو جمہوریت کے نام پر انہی سیاسی لوگوں نے رج کے لوٹا ہے کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ اب بھی گدوں کی طرح اس ملک کو نوچ رہے ہیں کروڑوں روپے الیکشن پر صرف کرنے والے سیاسی انڈسٹری چلا رہے ہیں جمہوریت ڈھونگ ہے وہ اپنے خلاف آواز حلق میں ہی بند کرانے کا گر جانتے ہیں اسمبلی کی کاروائی دیکھیں تو اب پتہ چلتا ہے کہ اس کا بھی اب معیار گر چکا ہے نازیبا گفتگو سے محفل کو گرماتے ہیں تعلیم کے ساتھ شرم و حیا اور تہذیب میں ظاہرا لپٹی ہوئی خواتین بھی پیچھے نہیں رہتیں وہ بھی اپنے حصے کے مصالحے دار پراٹھے اور چپاتیاں لگانا فرض سمجھتی ہیں اسمبلی کی پروسیڈنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ان امیر لوگوں کے لیے اسمبلی ایک تفریحی کلب ہے ان کو نہ عوام کی مشکلات کا احساس ہے اور نہ ہی ادراک ہے یہ منفرد مخلوق صرف اپنے مفادات کے لیے چونکتی ہے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا بندہ نہیں جو خود جا کر بازار سے اشیائے خوردنوش خریدتا ہو ان کو مہنگائی کا پتہ ہی نہیں گھریلو ملازمین یہ فریضہ ادا کرتے ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا اصل حالات کیسے ہیں انہیں تو صرف دولت سمیٹنے کے ساتھ نئی ماڈل کی گاڑیاں اور یورپ اور امریکہ کے تفریحی ٹورز چاہئیں ہمارے ہاں جمہوریت مونث ہوتے ہوتے بدنام ہو گئی اس کی عوامی آبرو کو ان گدوں نے لیرولیر کر دیا یہ لوگ بھولے بیٹھے ہیں کہ جس زمین پر تم تکبر سے چل رہے ہو اس کی تہہ میں تم کو چار بندوں نے رکھ کر آ جانا ہے پھر حشرات الارض جانیں کہ مردہ جسم ڈھانچہ کب بنے گا ان خود ساختہ عقلمند خانوں کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ دولت تم دوسروں کے لیےاپنے ضمیر اور کردار کو بیچ کر اکٹھی کرتے ہو ایک وقت میں جو کھا لیا وہ اور ایک وقت میں جو لباس زیب تن کیا وہ وقتی طور پر تمہارا ہے اس کے علاوہ کیا ہے سانس نکل جائے تو دولت کے لئے بچے آپس میں لڑتے ہیں تم اپنے ہی گھر میں فساد کا بھانبھڑ جلا کر رخصت ہو جاتے ہو کچھ بچوں کو ابا کی تاریخ وفات بھی یاد نہیں رہتی کئی فرعون نمرود اور شدداد آئے آج ان کا پتہ بھی نہیں کوئی دولت نہیں لے جا سکا ہماری یہی خواہش رہی ہے کہ اے اللہ تو اپنے علاوہ سب کچھ عطا کر دے اس میں کمی نہ آئے اس زندگی میں کوئی فارمولا کارگر نہیں سوائے عاجزی کے اللہ کا بندہ اپنے آپ کو ہر وقت اسکی بارگاہ میں سمجھ کر عمل کرے جھکتا جائے بس یہی ایک فارمولا کارگر ہے اس سے زندگی کی سوچ بدلتی ہے ماحول صرف باتوں بحث اور تکرار سے نہیں بنتا یہ عمل سے بنتا ہے ہماری اسمبلی میں یہ ماحول ہی نہیں بنتا کہ بیوقوف اور غریب عوام کی بات کی جائے وہاں بڑے لوگوں کی بڑی باتیں بڑے لوگوں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہیں ان کے مفاد کی باتیں ان کے نام و نمود کی باتیں موروثی سیاست کے ذریعے اپنی اولاد کی ٹریننگ اور پھر ان کے اقتدار کی باتیں لوگوں کے دلوں میں جو دکھ بھرے ہیں وہ زخم بنتے جا رہے ہیں اسکا مداوا چایئے غصہ اور نفرت ہر عوامی دل میں پیدا ہو رہی ہے اور انتقام کا جذبہ بھی یعنی آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ہر گھٹیا صفت بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہے انسانوں میں حقیقی بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے جیسے انسانوں کو عزت دے ان کے دکھ درد تکلیف کو دور کرنے کی جدوجہد کرے صرف اپنی ذات کے حلقے میں مقید نہ رہے ۔ایسے لوگ کہاں ہیں جو عوامی خدمت کا جزبہ رکھتے تھے ہمارا ملک صرف ایک ذات بن چکا ہے اس کی صفات کہیں گم ہو گئی ہیں دوسرے امیر ملک اپنی صفات سے پہچانے جا رہے ہیں جہاں غریب ملکوں میں رہنے والے دھوکہ اور فریب کے جال میں پھنس کر مستقبل کے اچھے خواب دیکھنے چلے جاتے ہیں اور درندہ صفت اور لالچی حرص، طمع کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالے اپنے نوکیلے دانتوں سے سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے ہیں اور پھر ان پر بھونکتے بھی ہیں ملک جس دور سے گزر رہا ہے اس میں محنت کفایت شعاری خلوص ایمانداری کی فضا بنا کر کام کرنے کی ضرورت ہے صرف تشہیر کافی نہیں عمل اور نتائج خود اچھے اور برے کے فرق کو ظاہر کر دیتے ہیں دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو مخلص رہنما عطا فرمائے پاکستان کے حق میں بہتری ہو پاکستان کی خیر اس میں بسنے والوں کی خیر ہو مخصوص لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کی زندگیاں بھی خوشحال ہوں زندگی آسانیوں سے گزرے بھیک مانگ مانگ کر گزر اوقات نہ ہو آخر میں اس مصرعے پر اجازت چاہوں گا اس کی وہ جانیں انہیں پاس وفا تھا یا نہیں۔ہم صرف دعا کرنے والے اور سہانے خواب دیکھنے والی مخلوق ہیں تعبیر کب ملے گی معلوم نہیں۔اس وقت تو بعض عوامی اداروں میں یہ حال ہے کہ چوراں تے مور تے موراں تے ہور۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے