جس طرح انسانی جسم میں دل اور دماغ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوا کرتی ہے پاکستان کے شہروں میں وہی حیثیت اسلام آباد کو حاصل ہے کیونکہ یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے اعتبار سے ملک کے دیگر شہروں میں مرکزی کا حامل ہے۔پاکستان کا مرکزی دارالحکومت بھی یہی شہر ہے۔
اسلام آباد کو جب کراچی کی جگہ پاکستان کا نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس شہر کو آباد کرنے اور اس کے انتظام کو سنبھالنے کیلئے14جون1960ءکو کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ایک ایکٹ کے ذریعے تشکیل دیا گیا تاکہ نئے دارالحکومت کے انتظام وانصرام کے حوالے سے کوئی پریشانی نہ ہو۔
اسلام آباد کے ماسٹر پلان بنانے کیلئے امریکہ کی ایک فرم کی خدمات حاصل کی گئیں جس نے اس شہر کو آباد کرنے کیلئے کیلیفورنیا کی طرز پر ایک جدید ترین ماسٹر پلان بنایا اور جنوبی ایشیاءمیں اسلام آباد پہلا شہر تھا جس کی تعمیر باقاعدہ ایک نقشے کے تحت عمل میں لائی گئی۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے ایک ساتھی لیفٹیننٹ جنرل محمد یحییٰ خان کو اس نو تشکیل شدہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کیا جنہوں نے ابتدائی طورپر3ممبران کے ساتھ اپنا کام شروع کیا اورسیکٹر جی فائیو میں مرکزی سیکرٹریٹ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ یہاں آکر کام کرنے والے ملازمین کیلئے سیکٹر جی سکس کی تعمیر کا آغاز ایک ساتھ شروع کیا۔
رفتہ رفتہ اس شہر کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوا1980ءکی دہائی تک یہ شہر محض چند سیکٹروں پر مشتمل ہوا کرتا تھا جس کی آبادی2لاکھ کے لگ بھگ تھی۔1981ءمیں اس شہر کو علیحدہ ضلع بنا دیا گیا اور انتظامی امور اس کے ذمے سونپ دیئے گئے۔
1980ءسے لیکر 1990ءکے دوران اس شہر نے تیزی کے ساتھ ترقی کی اور اس پر آبادی کا دباو بھی تیزی کے ساتھ بڑھا جس کے ساتھ ساتھ یہاں پر رہنے والے شہریوں کیلئے مسائل میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوا جس کے ساتھ ساتھ سی ڈی اے کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا،اس کے ساتھ ساتھ ادارے میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔
اب تک سی ڈی اے میں جتنے بھی چیئرمین آئے ہیں ان کے ساتھ میرے دوستانہ روابط رہے ہیں اور محبت کا رشتہ قائم رہا مگر ایک صحافی ہونے کے ناطے میں ہر دور میں اس ادارے کے اندر پائی جانے والی غلطیوں،کوتاہیوں کی نشاندہی اپنے اخبارات پر کرتا رہا ہوں جس پر کچھ احباب ناراض ہوئے مگر ایک صحافی کیا کرے کہ جب وہ اپنی آنکھوں سے غلط ہوتا دیکھتا ہے تو پھر وہ اس اسے صفحات پر بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتا اس کا مقصد تنقید نہیں ہوتا بلکہ تنقید برائے اصلاح ہوتا ہے تاکہ مسائل جلد از جلد حل ہوسکےں اور ادارے کی ساکھ پر کوئی آنچ نہ آئے۔
ان دنوں چیئرمین سی ڈی اے کی ذمہ داریاں کیپٹن(ر)انوار الحق کے ذمہ ہیں جن کا تعلق ڈسٹرکٹ
مینجمنٹ گروپ سے ہے اور راولپنڈی و اسلام آباد اس سے قبل ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر تعینات رہ چکے ہیںاور نہایت ذمہ دارو فعال افسر تصور کیے جاتے ہیںوہ اس ادارے کے34ویں چیئرمین ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلام آباد کے چیف کمشنر کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ جس دن سے انہوں نے اپنے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں ادارے میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے میں نظر آئی ہیں۔
شہرمیں آبادی کا حجم بڑھنے سے بہت سارے مسائل سامنے آئے جن کا تعلق سی ڈی اے سے تھا۔کیپٹن(ر)انوار الحق نے ادارے کی سربراہی سنبھالتے ہی شہر کو درپیش مسائل کے حل کیلئے خصوصی اقدامات کرنا شروع کیے ہیںجن میں سب سے اہم مسئلہ ادارے کے اندر موجود کرپشن کا خاتمہ تھا۔انہوں نے کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات کیے اور مزید کررہے ہیںجس کے باعث ادارے کے مختلف ڈائریکٹریٹز کا ریکارڈ ڈیجیٹل کرنا شروع کیا جو تقریباً پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔شعبہ لینڈ اور اسٹیٹ میں بہت ساری بے ضابطگیاں پائی جاتی تھیں ان کے آنے کے باعث ان میں بھی بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے ۔
شہر میں منظم اور طاقت ور قبضہ گروپس کام کررہے تھے جنہوں نے سی ڈی اے کی ہزاروں کنال اراضی پر قبضہ کررکھا تھا۔ ان سے یہ قبضہ واگزار کرانے کیلئے ان کی جانب سے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
ناجائز تجاوزات ہر بڑے شہر کا مسئلہ ہوا کرتا ہے،اسلام آباد کے فٹ پاتھ،پارکنگ لاٹس پر بھی قبضے کیے گئے تھے مگر انہوں اپنی انفورسمنٹ ٹیم کو متحرک کرتے ہوئے راونڈ دی کلاک کام کرنے حکم دیا۔اب ناجائز تجاوزات کے ختم کیے جانے کا مثبت رزلٹ سامنے آرہا ہے ، ہر شعبے میںبہتری کی امید کی توقع رکھی جا سکتی ہے ، امید ہے کہ یہ بہتری کی کوشش جاری رکھیں گے ۔
اس تحریر کے لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر افسر ایمانداری سے کام کررہے ہوں تو اس کے اثرات معاشرے پر پڑتے ہیں اور اسلام آباد کے شہری بدلتا اور خوبصورت ہوتا اسلام آباد خود دیکھ رہے ہیں۔