مہنگائی نے پاکستانی عوام کا جینا دشوار کر دیا ہے حکومت یہ دعوی کر رہی ہے کہ معاشی ڈسپلن کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا گراف نیچے چلا گیا ہے لیکن جب آپ مارکیٹ میں اشیائے خرد ونوش خریدنے نکلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی کی حقیقی صورت حال کیا ہے۔ چینی جو کہ ہر گھر کی ضرورت ہے اس کی قیمت دو سو روپے کلو تک پہنچ چکی ہیے حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں ۔ گزشتہ کئی سالوں سے شوگر مل مافیہ کی طرف سے چینی ایکسپورٹ کرنے کے لئے دبا ڈلوا کر فالتو چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت حاصل کی جاتی ہے ۔ حکومت کو یقین دلایا جاتا ہے کہ چینی کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی اور نہ ہی ملک میں شوگر کی قلت پیدا ہو گی ۔ مبینہ طور پر ملک کی زیادہ تر شوگر ملیں سیاست دانوں کی ملکیت ہیں۔ جب ملک میں چینی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو قیمتی زر مبادلہ جو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر بھاری سود پر حاصل کردہ قرض سے چینی امپورٹ کی جاتی ہیے۔ اس طرح شوگر مل مالکان جو اب مافیہ اور پریشر گروپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں کی تجوریاں بھری جاتی ہیں۔ جونہی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوتا ہے تو تاجروں کے روپ میں زخیرہ اندوز مافیہ سر گرم ہو جاتا ہے اور مبینہ طور پر ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں بھاری مقدار میں چینی گوداموں میں چھپا دی جاتی ہے۔ ان زخیرہ اندوزوں کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کے بڑے بڑے افسران بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ اب ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ حکومت نے پہلے تو پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی امپورٹ کرنے کا اعلان کیا اور اب اس میں تبدیلی کرکے تین لاکھ میٹرک ٹن چینی کی درامد کے ٹینڈرز جاری کر دئے ہیں ۔ اقتصادی ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس درآمد شدہ چینی کا فائدہ عام آدمی کو کم جبکہ مشروبات تیار کرنے والے بڑے صنعتی گروپس اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ ایف بی آر نے امپورٹ ہونے والی چینی پر سیلز ٹیکس اٹھارہ فیصد سے کم کرکے زیرو اعشاریہ پچیس فیصد کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ہے ۔ درآمد ہونے والے چینی پر ٹیکس چھوٹ کا پبلک اکانٹس کمیٹی کے چیئرمین نے نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر کو اگلی میٹنگ میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق اسلام آباد راولپنڈی اٹک چکوال اور پنڈ دادن خان میں چینی کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے مل مالکان کے مطابق ان کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے اس لئے چینی کی قلت ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں بجلی کے بل غریب آدمی کی بساط سے زیادہ ا رہے ہیں ۔ دو سو یونٹس سے صرف ایک یونٹ بڑھنے پر بل تین ہزار سے آٹھ ہزار ہو جاتا ہے تاجر اور عوام سراپا احتجاج ہیں اور عوام اپنی قیمتی اشیا بیچ کر بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی پر مجبور ہیں ۔ ادھر گھی اور ککنگ آئل ملز ایسوسی ایشن کے عہدے داروں نے حکومت سے مزاکرات کی ناکامی کی صورت میں غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی دھمکی دے دی ہے جس سے ملک میں گھی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ حکومت کو گھی ایسوسی ایشن کے عہدے داروں سے کامیاب مزاکرات کرکے مسلے کا حل نکالنا چاہیے تاکہ ملک میں گھی اور ککنگ آئل کی قلت پیدا نہ ہو۔ ایران اسرائیل جنگ کے بعد۔ بین الاقوامی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کچھ اضافہ ہوا تھا اب انٹرنیشنل مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں لیکن حکومت پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کئے جا رہی ہے ۔ پندرہ روز قبل پٹرول کی قیمتوں میں آٹھ روپے لیٹر اضافہ کیا اور اب ایک بار پھر اس میں پانچ روپے اضافے سے پٹرول کی قیمت 272 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے جو غریب عوام کے ساتھ زیادتی ہے ۔ پی ٹی آئی کے وزیر غلام سرور خان کے بیان کی وجہ سے پی آئی اے کو دنیا بھر میں رسوائی اور پابندی کا سامنا کرنا پڑا جس سے ہی آئی اے کو دو سو ارب روپے کا نقصان ہوا ۔ اب برطانیہ نے پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندی ختم کر دی ہے شہباز حکومت نے برطانیہ کے اس اقدام کو مثبت قرار دیا ہے۔ آئندہ سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے چینی کی ایکسپورٹ کی کسی صورت اجازت نہ دی جائے ورنہ حکومت کو رسوائی کا سامنا ہو گا ۔ چینی کے زخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف بھی انتظامی مشینری کی مدد سے سخت ایکشن لینا چاہیے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فایدہ عوام تک بھی پہنچائیں ۔ بجلی کے بلوں کے موجودہ فارمولے میں بھی ملکی حالات کے مطابق نظر ثانی کریں تاکہ عوام بھاری بلوں سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں ورنہ ۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام تو رل گئے ہیں۔