ڈاکو دو طرح کے مشہور ہیں، ایک کچے اور دوسرے پکے کے۔ کچے والے تو جلد سمجھ آ جاتے ہیں، جنہوں نے دریائی علاقوں میں گھنی کوندروں ، جنگلوں میں اپنے اپنے علاقے بسائے ہوتے ہیں، اکثر ذاتی دشمنیوں یا زور زبردستی مال بنانے والے مفروروں اور بدمعاشوں کے مختلف گروہ ہوتے ہیں۔ یہ جدید اسلحہ سے لیس آجکل سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں دہشت کی علامت بن چکے ہیں، پولیس بھی ان سے کنی کتراتی ہے۔ کچے کے یہ ڈاکو سندھ کے دریائی علاقوں میں آج بھی سندھ پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے پے رول پر ہوتے ہیں جنہیں بوقت ضرورت اجرتی قاتلوں، اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے طور پر استعمال بھی کروایا جاتا ہے، یہی وجہ کہ عشروں بعد پولیس اور حساس اداروں کی متعدد کاروائیوں کے باوجود یہ ختم نہیں بلکہ بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ بڑی بڑی سیاسی قوتوں کی پرائیویٹ فوج ہے جو انکے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔پرانے زمانے میں یا تو سیدھے سادے چور ہوتے تھے یا بڑے بڑے ڈاکو۔ چور مختلف طریقوں سے چوریاں کرتے، گھروں، دکانوں گوداموں کی چھتوں میں سوراخ کر کے یا پچھواڑے سے ”سن“ یعنی نقب لگا کر اندر داخل ہوتے اور چوری کر کے بھاگ جاتے، چور عموماً ہوشیار چالاک لیکن گیدڑ کی طرح بزدل ہوتے، یہ راتوں کو چوریاں کرتے اور اندھیرے ہی میں غائب ہو جاتے۔ جبکہ ڈاکو بڑے بہادر لوگ ہوا کرتے تھے، برطانوی کانٹی نوٹنگھم شائر کے شیروڈ کے جنگلات میں رہنے والے رابن ہڈ کو تو ہم نے خوب پڑھا ہے، ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ہفتہ وار ایک فلم سیریل رابن ہڈکے نام سے سالوں چلتی رہی۔ اس نے بھی اپنی کاو¿نٹی کی شیرف کی زیادتیوں پر علم بغاوت بلند کیا تھا، بڑے بڑے امیروں کو لوٹتا اور غریبوں، یتیموں میں تقسیم کر دیا کرتا۔ اسی طرز کے ہمارے بھی کچھ ڈاکو غریبوں کے خیر خواہ اور امیروں کے زبردست ویری گزرے ہیں لیکن یہ ڈاکہ زنی میں بھی اصولوں کے پابند رہتے، نماز روزہ بھی کرتے اور لٹ مار بھی۔ ڈاکو وہ کسی خاص وجہ سے بنتے، حکومتی جبر، خاندانی دشمنی، اور سماجی ناانصافیوں کی ایک بڑی وجہ ان عام سے آدمیوں کو ڈاکو بناتی رہی۔ مشہور زمانہ سلطانہ ڈاکو، نظام ڈاکو وغیرہ پر تو کئی کئی فلمیں پاکستان میں بھی بن چکی ہیں ۔ ہماری اپنی یادداشت کے مطابق ہمارے پرانے دور کے چند مشہور ڈاکو، محمد خان ڈھرنالیہ، خطہ پوٹھوار کا سجاول ڈاکو اور چراغ بالی آف خوشاب بھی بڑے مشہور ڈاکو ہو گزرے ہیں جو اپنے اپنے وقتوں کے بےتاج بادشاہ تھے، ظالم کے ہاتھ کاٹتے لیکن کسی غریب پر ہاتھ نہ اٹھاتے، حکومت وقت بھی ان سے خائف،چلتے پھرتے ادارے، ڈنکے کی چوٹ پر فوری اور سستا انصاف۔ ایک ڈاکو سندھی”پھل ماچھی“ بھی اپنی دلیری بہادری اور غریب پروری کی وجہ سے اتنا ہر دلعزیز تھا کہ جب فوت ہوا تو کہتے ہیں کہ عام لوگوں نے اسکی میت پر اجرکوں کے ڈھیر لگا دیے۔ میانوالی کا ”میرا گندے والا“بھی بڑا عرصہ میانوالی پولیس کیلئے ایک چیلنج بنا رہا جو دراصل چور ۔ ڈاکو نہیں بلکہ ایک دلیر قسم کا مفرور تھا۔ ان مشہور ڈاکوں کی جب زندگی کو بندہ پڑھتا ہے تو اسمیں سے بہت سی روایات، اصول، عدل و انصاف کے قصے سننے کو ملتے ہیں، وہ ڈاکو ضرور تھے، لیکن وہ کسی ناحق پر ڈاکہ نہیں مارتے تھے۔یہ وڈیروں، جاگیر داروں کو لوٹتے اور غریبوں میں بانٹتے تھے۔ جناب پھر زمانہ بدل گیا، ڈاکو راج ختم ہو گیا، ڈھرنالیہ، سجاول اوربالی بھی راہی عدم کو سدھارے، لیکن لگتا ہے جاتے جاتے وہ اپنے سچے اصول و روایات کو بھی ساتھ ہی لے گئے اور ہمارے لئیے صرف چور اچکے راہزن لٹیرے ہی یہاں رہ گئے ۔ دوسری طرف اس ملک میں کافی عرصہ صدارتی نظام قائم رہا، صدر مشرف اسکی آخری نشانی تھے، جس نظام کا اگر مجموعی جائزہ لیں تو وہ ہمیں مغربی جمہوری نظام سے کہیں بہتر لگتا ہے۔ ترقی بھی تیز رفتار اور کم سے کم لوٹ مار لیکن مغربی دباو¿ میں وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت ہم پر اپنا سایہ گہرے سے گہرا کرتی چلی گئی اور اسی نام نہاد طرز حکومت میں کچے کے اکثر رسہ گیر، اٹھائی گیرے، چور اچکے جمہوریت کے لبادے میں اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔ ویسے تو ماضی قریب کی ہندوستانی پھولن دیوی بھی توبہ تائب ہونے کے بعد اسمبلی میں پہنچ چکی تھی، لیکن ایک دن کے وقفے سے آزاد ہوئے ہم دونوں ملکوں کے لوگوں میں بڑا فرق ہے، ہم نے آذادی ضرور لے لی لیکن ساتھ ساتھ ہم ہر قسم کی ذمہ داریوں سے بھی آزاد ہو گئے۔ قومی وفاداریوں اور معاشرتی ذمہ داریوں کو بھول کر ہم صرف اور صرف ذات پات قوم قبیلے تک محدود ہو کر رہ گئے، غریب اور امیر میں پہلے دن سے زمین و آسمان کا فرق جان بوجھ کر ختم نہیں ہونے دیا گیا۔مثال کے طور نوے کی دہائی تک سرکاری اور پرائیوٹ ملازمین کے سکیلوں کو دیکھیں تو سال بعد ترقی ( انکریمنٹ )صرف چند روپے۔ اسی لیے یہاں اشرافیہ چھا گئی جبکہ محنت کش اور غریب مزدور طبقے کی کسی نے نہ سنی۔ جمہوریت کے نام پر جو بھی ڈگڈی بجی اس نے سب کو بندرکی طرح نچایا، کبھی روٹی کپڑا اور مکان اور کبھی جھوٹ موٹ کا خوشحال پاکستان۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم ابھی تک دوربینوں سے چاند کو ڈھونڈ رہے ہیں اور پھولن دیوی کے ہندوستان نے چاند پر اپنے قدم تک رکھ دیے ہیں۔ قارئین کرام،بات ہو رہی تھی کچے پکے کے ڈاکوں کی۔ ہمارے ملک میں اگر دیگر کوئی ترقی ہوئی یا نہیں !ڈاکہ زنی کی انڈسٹری ہمارے ہاں بڑی تیزی سے پھلی پھولی ہے۔ پرانے بزدل چوروں نقب زنوں اور اصول پرست ڈاکوں کی جگہ اب شہری اورسرکاری ڈاکوں نے لے لی ہے۔ شہری ڈاکوں سے تو کوئی گلی محلہ چوک چوراہا محفوظ نہیں، موٹر سائیکلوں پر آتے ہیں اور فون،پرس، کیش بیگ سب چھین چھان کر لے جاتے ہیں، دن دیہاڑے بینکوں دفتروں گھروں میں لوٹ مار کرتے ہیں، قتل بھی کرتے ہیں اور بے عزت بھی، نہ مردوں کو چھوڑتے ہیں نہ یہ درندے عورتوں کی پرواہ کرتے ہیں، بچے بھی ان سے محفوظ نہیں اور ماشااللہ ہمارے اربوں چاٹتے ادارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔یہ لٹیرے تو اب چہرہ بھی نہیں چھپاتے، اتنے بے دھڑک اور نڈر کہ جگہ جگہ کیمروں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ اکثر ان میں پیشہ ور جرائم پیشہ افراد ہوتے ہیں جنہیں مقامی پولیس کے چند حاضر سروس ملازمین کی مکمل پشت پناہی اور رہنمائی تک حاصل ہوتی ہے۔ دوسری قسم کے ڈاکو اب سرکاری ڈاکو بڑی دیدی دلیری سے عوام کی جیبوں کا صفایا کرتے ہیں جن کے پاس جیب کتروں والا چھوٹا بلیڈ نہیں بلکہ سرکاری ٹوکہ ہوتا ہے۔ جب چاہے، گندم چینی آٹا، پیٹرول ڈالر کے ریٹ بڑھا دیں۔ جتنا مرضی ہے عوام کا خون نچوڑیں، یہ ہمیشہ وسیع تر قومی مفاد میں جب چاہیں جیسا چاہیں ایک ڈریکولائی روپ دھار سکتے ہیں۔ ٹیکس لگا سکتے ہیں، قیمتیں بڑھا سکتے ہیں۔ ان لٹیروں کی بھی دو اقسام ہیں،ایک وہ جو بڑا ہاتھ مار کر تھوڑا بہت رابن ہڈبنتے ہوئے غریب غربا میں بھی بانٹ دینا، جیسے فلاں انکم سپورٹ پروگرام یا بلا سود قرضے اور پھر لوگ انہیں کہتے ہیں کہ ہمارا مداری سب پر بھاری یاکھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے”۔ دوسرے بڑی ہی ڈھیٹ قسم کے بد خصلت سرکاری اعمال جو اپنی وارداتوں کے سراغ تک نہیں چھوڑتے، یعنی اربوں کھا کر ڈکار تک نہیں مارتے ۔ کیا کمال کی سرکاری لکڑ ہضم پتھر ہضم کی پھکی انہیں کھلائی جاتی ہے کہ انکو کبھی کرپشن کی بدہضمی کی آج تک شکایت نہیں ہوئی لیکن انکی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ان ہر دو نسلوں کو ہمیشہ طاقتور اداروں کی مکمل سپورٹ اور آشیر باد حاصل رہتی ہے، یہ ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیں، ایک دوسرے کی ڈھال بنتے ہیں۔ اس کیلئے قانون توڑنا، تبدیل کرنا، راتوں رات حسب منشا ترمیم تو انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، بس پکڑائی نہیں دینا کے اصولوں پر یہ ہر قانون، اصول ہر ضابطے کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ مقتدر طبقے انکے سہولت کاروں کی شکل میں ہر وقت انکے دفاع میں پیش پیش جو اپنا اپنا حصہ نکال کر انکی پیٹھ تھپتھپاتے، شاباشی دیتے کہتے ہیں”ویل ڈن“لگے رہو۔آپ ہمیں حاجی صاحب پکارو ہم تمہیں الحاج کا خطاب دیتے ہیں۔ ان حالات میں اب عوام ہی فیصلہ کریگی کہ وہ آئندہ کسی حق سچ کا ساتھ دیں گے یا انہیں یہی ظالمانہ، جابرانہ، غیر منصفانہ دور قابل قبول ہے یا پھر موجودہ جمہوری لٹ مار؟ فیصلہ اب آپ کاہے۔

