کالم

ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دینی و علمی خدمات

riaz chu

ڈاکٹر ذاکر نائیک قرآن اور اسلام پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادیان کے تقابلی مطالعہ، بالخصوص ہندو مت، بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت کے بارے میں ان کا علم قابل رشک ہے بلکہ اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔انہوں نے 1991ء میں دعوت اسلامی کا آغاز کیا اور آئی آر ایف یعنی اسلامک ریسرچ فاو¿نڈیشن کی بنیاد رکھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ادارے کے تحت ممبئی میں اسلامک انٹرنیشنل سکول اور رفاہی تنظیم یونائیٹڈ اسلامک ایڈ کی بنیاد رکھی وہ آئی ای آر اے کے بورڈ ممبر اور مشیر بھی ہیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی میں بے شمار اتاروچڑھاو¿ آئے۔ یکم اپریل 2000 کو امریکہ میں ان کا عیسائیوں کے نامی گرامی عالم ولیم کیمبل کے ساتھ کئی گھنٹے طویل مناظرہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ اس مناظرہ کا عنوان ”قرآن اور بائیبل، سائنس کی روشنی میں“ تھا۔ یہ مناظرہ ایک امریکی ٹی وی چینل پر براہ راست دکھایا گیا تھاجس کے بعد کم از کم 34 ہزار لوگوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس مناظرے کے بعد ہر جگہ انہیں ”تقابل ادیان“ کا سب سے بڑا ماہر سمجھا جانے لگا اور ہر جگہ انہیں دعوت دین کے لئے بلایا جانے لگا۔یوں بھارت کے رہنے والے انتہا پسند ہندوو¿ں کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کے لوگ بھی گاہے گاہے اسلام کی طرف جارہے تھے۔ یوں 21جنوری 2006ءکو بھارت میں ہندوو¿ں کے سب سے بڑے عالم روی روی شنکر کے ساتھ ان کا ”اسلام میں تصور خدا اور ہندو مذہب“ کے موضوع پر مناظرہ ہوا تو انہوں نے شنکر کو تھوڑی ہی دیر میں بے بس کر دیا۔یہ منظر دیکھ کر کتنے ہی ہندو مسلمان ہو گئے۔ 18 اکتوبر 1965ءکو بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر بمبئی میں پیدا ہونے والے ذاکر نائیک پیشے کے لحاظ سے تو ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں لیکن انہیں دعوت دین اور مختلف مذاہب میں پی ایچ ڈی ڈگری مصر کی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب دنیا کے سارے براعظموں میں جا چکے ہیں۔ 20سال کے عرصہ میں انہوں نے بیسیوں ملکوں میں زائد بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔کتنے ہی لوگوں کا بائیبل، توریت اور ہندوو¿ں کی گیتا و مہا بھارت سے تقابل کر کے دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ دعوت دین کے مشن کےلئے وہ عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے متاثر ہوئے تھے جن کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 1987 میں ہوئی۔ 2006ءمیں انہوں نے بتایا کہ میں دیدات نے انہیں ”دیدات پلس“ کا لقب دیا تھا۔اگلے سال یعنی 2007ءمیں انہوں نے بمبئی میں سالانہ 10روزہ ”امن کانفرنس“ کا انعقاد شروع کیا جس میں دنیا بھر سے مبلغین اسلام جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھی تھے، آنا شروع ہوئے۔ وہ مذاہب عالم کا اسلام کے ساتھ تقابل پیش کرتے اور بے شمار لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیتے۔ یہ سلسلہ 2012ءتک جاری رہا۔ جب اس کانفرنس میں ریکارڈ 10لاکھ لوگ شریک ہوئے تو بھارتی انتہا پسند ہندو سماج ہل کر رہ گیا۔ ان دنوں بھارت میں نریندر مودی کو وزیراعظم بنائے جانے کی مہم عروج پر پہنچنے لگی تو انتہا پسند ہندو تنظیمیں متحرک ہو چکی تھیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ ڈاکٹر ذاکراسلام کے ساتھ ہندو مت کا تقابل کر کے ان کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں، سالانہ کانفرنس کے خلاف تحریک شروع کر کے اسے رکوا دیا۔ اس پرڈاکٹر ذاکر نائیک نے کانفرنس چنائی میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا کر دی گئی۔ان حالات کی وجہ سے عرصہ چار سال سے یہ کانفرنس منعقد نہ ہو سکی۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر کی دعوت کا سلسلہ ان کے پیس ٹی وی، ویڈیو ریکارڈنگز، تحریروں، انٹرنیٹ اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رہا۔ پیس ٹی وی نے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ اس کے ناظرین کی تعداد 10کروڑ سے تجاوز کرنے لگی۔انہوں نے 2006میں پیس ٹی وی انگلش کا آغاز کیا توجلد ہی یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا چینل بن گیا جو دنیا کے 200 سے زائد ملکوں میں دیکھا جا رہا ہے ، اس کے اب بھی 25فیصد ناظرین غیر مسلم ہیں ۔ انہوں نے 2011ءمیں بنگلہ جبکہ 2015ءمیں چینی زبان میں چینل کی نشریات کا آغاز کیا ۔ 2010میں ہی بھارتی نشریاتی ادارے ”انڈین ایکسپریس“نے انہیں ملک کی 90ویں بااثر شخصیت قرار دیا تو 2011ءمیں ان کا درجہ 89واں تھا۔قبل ازیں 2009ءمیں انہیں بھارت کے مختلف مذاہب کے 10 بڑے مذہبی مبلغین میں تیسرے درجے پر رکھا گیا تھا۔2011سے 2014 تک امریکہ کی جارج ٹاو¿ن یونیورسٹی نے انہیں دنیا کی 500بااثر ترین شخصیات میں مسلسل برقرار رکھا۔ ان کی انہی خدمات کے اعزاز میں29 جولائی 2013ءکو انہیں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی جانب سے 2013ءکی بہترین مسلم شخصیت قرار دے کر ”بین الاقوامی قرآن ایوارڈ“ دیا گیا جس کے ساتھ انہیں ساڑھے سات لاکھ درہم انعامی رقم ملی جو انہوں نے پیس ٹی وی کے لئے وقف کی۔اسی سال انہیں ملائشیا کے بادشاہ نے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا کیا۔ 16جنوری 2014ءکو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے اسلام کیلئے خدمات پر شارجہ ایوارڈ سے نوازا۔ 25اکتوبر2014ءمیں انہیں گیمبیا کے یوم آزادی کا واحد مہمان خصوصی بنا کر مدعو کیا گیا تھا جہاں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ یکم مارچ 2015ءکو سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خود مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ”شاہ فیصل ایوارڈ“عطا کیا جس کے ساتھ ملنے والی ساڑھے سات لاکھ ریال کی انعامی رقم انہوں نے ”اسلامک ریسرچ فاو¿نڈیشن“ کو عطیہ کر دی۔اس وقت فیس بک پر ان کا پیج مسلم دنیا کی تمام شخصیات میں سب سے مقبول اور سب سے زیادہ تیزی سے پسندیدگی حاصل کرنے والا کا اعزاز رکھتا ہے جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد (لائکس) لے چکا ہے اور اب تک ڈاکٹر ذاکر نائیک کی انٹرنیٹ پر تمام ویب سائٹ کے تعداد 62 لاکھ ہے جو دنیا واحد مسلم ہیں کہ ان کہ اتنی ویب سائٹ موجود ہیں۔ یکم جولائی 2016ءکو ڈھاکہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد اسلام دشمن بنگالی اور بھارتی میڈیا نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کیخلاف اب تک طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے کہ ایک حملہ آور نے ان کا فیس بک پیج لائیک کر رکھا تھا اور اس نے ان کے خطابات انٹرنیٹ پر شیئر کئے تھے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے پہلے ان کے چینل اور پھر تنظیم پر پابندی عائد کر دی تووہی کچھ اب بھارت میں ہو رہا ہے۔ ان کی آواز کو پابند سلاسل کرنے کےلئے بھارت کے چوٹی کے دماغ اور ساری مشینری دن رات سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ ان کے خلاف نئی قانون سازی کی جارہی ہیں تو راستے بند کرنے کےلئے دماغ لڑائے جا رہے ہیں۔ ھندوستان کے پنڈتوں نے اس کیخلاف مہم چلائی اور مسلم علماءکو استعمال کرکے ان کےخلاف فتوے شائع کیے۔اور حکومت نے چلاوطنی پر مجبور کیا۔ ملائیشیا کے سربراہ حکومت مہاتیر محمد نے دعوت دی اور ملائیشن شہریت دیدی اور یوں ملائیشیا منتقل ھوکر اپنی دعوتی کام کو جاری رکھے ھوئے ھیں۔ اللہ پاک ان کی عمر میں برکت ڈالدے اور اسلام کی دعوت کےلئے زندہ سلامت رکھے ۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے