کالم

ڈاکٹر وردہ ہم شرمندہ ہیں

پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے ہماری سوچیں رشتوں دوستیوں اور انسانی ہمدردیوں سے بہت دور جا کر بس دولت پر اٹک گئی ہیں خون سفید ہو گئے ہیں، اپنے اپنے نظر آتے ہیں لیکن وقت پڑنے پر دشمنوں اور بیگانوں سے بھی برے لگتے ہیں، حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ انسان کے روپ میں خون خوار درندے چھپے بیٹھے ہیں جنہیں محض اپنی ذات نظر آتی ہے اور ہر دوسرا ان کے لیے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت رکھتا۔ افرا تفری کے اس دور میں نفسا نفسی کے اس عالم میں صورتحال یہاں پہنچ چکی ہے کہ نہ کوئی اپنے گھر میں محفوظ نظر آتا ہے نہ باہر جس کو جہاں موقع ملتا ہے، وہ ایک دوسرے کو چیر پھاڑ کر اپنی بقا تلاش کرتا ہے ۔تھانے محافظ خانے بھی ہیں عدالتیں بھی ہیں کئی طرح کی فورسز بھی قائم ہیں، بڑے بڑے عالی شان دفاتر میں بیٹھ کر یہ بڑے بڑے افسر بھاری تنخواہیں اور بے شمار سہولتیں لے کر بھی انسان کی حفاظت کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے، چند دہائیاں پہلے تک جب اس قدر جدید سہولتیںاور جدید الات دستیاب نہیں تھے تو انسان اپنے گھر کیا ویرانے میں بھی محفوظ ہوتا تھا۔ دوستیاں پروان چڑھتی تھی اور اعتبار کی حدوں تک پہنچ کر پیار کی مثالیں قائم کرتی تھی ۔دوست دوستوں کے لیے اپنی جانیں قربان کر کے بھی دوستی کا بھرم رکھتے تھے اور یہی حال رشتہ داریوں میں بھی تھا اس دور میں لوگ روکھی سوکھی کھا کر بھی چین اور اطمینان کی زندگیاں گزار رہے ہوتے تھے لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے رشتہ دار رشتہ دار نہیں رہے وقت پڑنے پر مخالفین کے روپ میں نظر آتے ہیں اور دوست دوستوں کی بجائے دشمنوں سے بھی زیادہ برے بن کر لازوال انسانی رشتوں رویوں اور اعتبار کو لوٹ کر ندامت کی بجائے خوشی محسوس کرتے ہیں یوں لگتا ہے کہ انسان انسان نہیں رہے حیوانوں سے بھی آگے نکل چکے ہیں اور انسانیت کا قیمتی احساس ہم سے چھین چکا ہے، سوچتا ہوں کہ چار دسمبر کی شام کو جب ایک بوڑھا باپ ایبٹ آباد کے تھانہ کینٹ میں اپنی ڈاکٹر بیٹی کی گمشدگی کی رپٹ درج کرانے آیا تھا تو اسی وقت اس انسان دوست محرر منشی سے لے کر ایس ایچ او تک کو وائرس پر پورے ہزارہ کی پولیس اور ایجنسیوں کو ریڈ الرٹ پیغام جاری کرنا چاہیے تھاکہ ایک مسیحا گم ہو گئی ہے اور پھر اپنے تمام اختیارات اور تمام فورسز کو لے کر مسیحا کی تلاش شروع کرتے اور رات ڈھلنے سے پہلے اس قیمتی جان کو بازیاب کرا کر اطمینان کا سانس لیتے لیکن افسوس کہ پولیس کا وہ شعبہ جو اپنے کندھوں پر محافظ کا بیج لگا کر چلتا ہے میں اس محافظ والے بیج کی حفاظت نہیں کی بلکہ علاقہ میں امن و امان اور تحفظ کی اس بنیادی ذمہ داری سے بھی انحراف کیا ہے کہ جس کے متعلق عام شہری یہ سمجھ کر گھر سے نکلتا ہے کہ پولیس موجود ہے اور ہم محفوظ ہیں تھانہ کے اس منشی سے لے کر ایس ایچ او تک جو اپنے فرائض میں غفلت برت کر پورے صوبے کی پولیس کے منہ پر کالک مل دی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک بلکہ شرمناک بات وہ گفتگو ہے جو تھانہ کے افسر نے لکھوانے والے بوڑھے باپ سے کہی تھی کہ دوستیاں کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ بندہ اس قابل ہے یا نہیں کمال ہے بوڑھا باپ نے سی سی ٹی وی فٹیج بھی دے دی اور بنیادی معلومات بھی فراہم کر رہا ہے کہ اس کی بیٹی ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں سینیئر ڈاکٹر ہے وہ ایمرجنسی ڈیوٹی پر موجود تھی، اس نے اپنے کولیگ کو بتایا کہ وہ اپنی سہیلی کی کار میں اس کے گھر جا رہی ہے۔ 10/ 15 منٹوں تک واپس ا جائے گی اور رات گئے تک وہ واپس نہیں آئی اس سے زیادہ وہ بوڑھا باپ کیا معلومات اور ثبوت دیتا لیکن متعلقہ پولیس نے واقعہ کی حساسیت پر توجہ ہی نہیں دی ،جوں جوں وقت گزر رہا تھا معاملہ سنگین سے سنگین تر ہو رہا تھا ،سنا ہے کہ پولیس نے مسیحا کی سہیلی اور اس کے خاوند کو تھانے بلوایا مگر چمک نے قانون کے رکھوالوں کو اندھا کر دیا ۔وہ ملزمان ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آزاد ہو کر اپنے گھر چلے گئے اور اس دوران ایک قیمتی انسانی جان جو انسان اور انسانیت کو بچانے کے لیے زندگی وقف کر چکی تھی ،خونخوار انسانی درندوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئی دو معصوم بچوں کی ماں اور بوڑھے والدین کی کفیل ہزاروں لاکھوں بیماروں کے لیے دست شفا بے رحمی سے قتل کر دی گئی اور اب تھانے کے افسر سے لے کر ڈی پی او تک سبھی وضاحتیں دینے میں مصروف ہیں کوئی کہتا ہے کہ چار میں سے تین ملزمان گرفتار کر لیے گئے ہیں اور چوتھے کے لیے پشاور میں چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ہم ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ ڈاکٹر وردہ واپس آ جائے گی کیا بوڑھے باپ کو تمام عمر کی کمائی کی صورت میں ڈاکٹر بیٹی واپس مل جائے گی کیا دو معصوم بچوں کو جو ابھی تک دروازے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ماما آگئی کو ان کی پیار کرنے والی ماں واپس مل جائے گی، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ز ہسپتال ایبٹ آباد کے ایم ایس سے لے کر ڈاکٹرز تک اور نرسز سے لے کر پیرا میڈک سٹاف بلکہ کلاس فور ملازمین تک سبھی قابل تعریف ہیں کہ جنہوں نے اپنی ساتھی ڈاکٹر کیلئے بلا خوف احتجاج اور اواز بلند کی دھرنا دیا احتجاج کیا سول سوسائٹی کو متحرک کیا اور نوبت یہاں پہنچی کہ اس اندھوں لاکھ اندوہناک قتل کی اوازیں صوبائی اور قومی اسمبلی تک گونجنے لگی ہیں ضمیر کی آواز تو یہ ہے کہ متعلقہ تھانے کے منشی سے لے کر تفتیشی افسر اور ایس ایچ او تک بلکہ ڈی ایس پی اور ڈی پی او خود استفعٰی دے کر اقرار کریں کہ ہم اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے یا پھر حکومت ان تمام کو وہ سب کچھ کرے جو ہسپتال کے عملے کی ڈیمانڈ ہے یا جو ایبٹ آباد کے عوام سوچ رہے ہیں لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا سب اپنی نوکریوں پر بحال بھی رہیں گے ملزمان کے چالان بھی ہوں گے وہ عدالتوں میں پیش بھی ہوں گے مگر نتیجہ وہی نکلے گا جو ہر مظلوم کے مقدمے میں نکلتا ہے ہاں ایک بات ضرور ہو گئی ہے، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کو ڈاکٹر وردہ جیسی قابل محنتی انسان دوست مسیحا واپس نہیں مل سکے گی اور نہ ان دو معصوم بچوں کو زندگی بھر ماں کا پیار مل سکے گا بلے دی ہٹی بھی کھل جائے گی اور آئس کا کاروبار کرنے والوں کا دھندا بھی چلتا رہے گا تھانہ سرکل پولیس افسر ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے دفاتر کی شاندار عمارتوں پر پولیس کا پرچم بھی لہراتا رہے گا اور ان کی لال نیلی بتیوں والی گاڑیاں اور ان میں بیٹھے شیر جوان پورے رعب سے محافظ کا بیج لگا کر نوکریاں کرتے رہیں گے اور جب کوئی بوڑھا باپ اپنی بیٹی کی گمشدگی کی رپٹ لکھوانے تھانے آئے گا تو اسے یہی جواب دیا جائے گا کہ دوستی کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ اگلا بندہ اس قابل ہے بھی یا نہیں 67 تولے سونا بچپن کی دوست کی زندگی سے زیادہ اہم ہو جائے گا تو پھر ڈاکٹر وردا ہ کو مرنا ہی پڑتا ہے اور جن معاشروں میں دولت کی اہمیت دوست سے زیادہ ہو جائے تو ایسے معاشرے خزاں کا شکار رہتے ہیں بہار ان کے نصیبوں سے نکل جاتی ہے ڈاکٹر وردہ ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے