کالم

ڈنڈے والے پیر سائیں

اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی اور اس میں انتظامات کو چلانے کے لیے قوانین بھی عطا فرمائے انسان کیونکہ پیدائشی طور پر ظالم اور جاہل ہے لہٰذا اس صفات کو بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے معاشرتی قوانین بھی نافذ کرنے کا حکم دیا۔ قتل کرو گے تو خون بہا دو یا پھر خود بھی مارے جاو دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ چوری کرنے والے کے ہاتھ بھی کاٹ دیے جاتے ہیں نظام زندگی سہل طریقے سے چلتا ہے کیونکہ کہ قوانین کی معاشرتی حکمرانی اللہ تعالیٰ کے احکامات سے منسک ہے اسلامی معاشرے میں جب سربراہ مقرر ہوتا تو وہ اپنے آپ کو قوانین سے آزاد نہیں بلکہ قوانین اپنی اندگی پر بھی لاگو کرتاہے یہ اصول واضح ہے کہ جب اپنے آپ کو کسی کام کےلئے فائز کر دیا جائے تو اس کی صفات آپ میں پیدا ہو جاتی ہیں تو لیڈر شپ کی صفات تفویض ہونا ہے صفت کی قبولیت نہیں ہے حکم کی قبولیت ہے یہاں سے گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا لاکھوں لوگوں نے اپنی جان مال عزت کی قربانیاں دے کر اس کو قائم کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ان عظیم لوگوں کی قربانیوں کو قوم یکسر بھول چکی ہے صرف اگست کی یاد میں تقریر کو پر تاثیر بنانے کے لیے ان شہدا کا نام لیا جاتا ہے ملک کو چلانے کے لیے حکومت بنتی ہے اور عوام کی تایئد سے سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آنے کے مختلف حربے استعمال کرتی ہیں عوام کے حقوق اور جمہوریت کا شور مچاتے ہوئے سیاسی جماعتیں کامیابی کی دہلیز پر آ کھڑی ہوتی ہیں اندرون ملک سیاسی حکومت اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے فوج جس کے تین شعبے ہیں بری بحری اور فضائی یہ ہر وقت چوکنے رہتے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرتے ہیں یہ ایک مخصوص ادارہ ہے جہاں نظم و ضبط ہے واضح اصولوں کے تحت لاکھوں افراد پر مشتمل یہ لوگ اس لئے کامیاب ہیں کہ ان میں نہ صرف سخت ڈسپلن ہے بلکہ ضرورت کے وقت سخت احتساب بھی ہے جسکی وجہ سے کوئی بھی اپنے آپ سے باہر نہیں ہوتا اس ادارے میں بھرتی کے لیے ایک اصول مقرر ہیں ان پر عمل ہوتا ہے پھر سخت ٹریننگ کے بعد جوان خون اس ادارے میں شامل ہوتا ہے اپنا مخصوص لباس تو انہوں نے پہننا ہی ہوتا ہے یہی ان کی پہچان کا ذریعہ ہے بڑے رینک کے لوگوں کے پاس لباس کے ساتھ ایک مخصوص سٹک بھی ہوتی ہے جو یہ اپنی بغل میں دبائے رکھتے ہیں کہ ضرورت کے وقت اس کا مناسب استعمال ہو سکے سیاسی جماعتوں نے جب اندرون ملک افراتفری پھیلانے اور لڑنے جھگڑنے کے سین پیدا کیے تو پھر میں پہلے ڈنڈے والے پیر سائیں نے کھنگورا مارا اور ملک کو ڈگر پر لانے کے لئے باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ،سائیں جی دس سال رہے ملک نے یقینا ترقی کی معاشرہ بھی منظم اور قانون پر عمل درآمد کرنے والا بن گیا خوف کی وجہ سے سکون اور زندگی صراط مستقیم پر چلنے لگی سیاسی فضا پیدا ہوئی جمہوریت کے نام کو جھاڑ پھونک کر پھر استعمال میں لایا گیا سیاسی جماعتیں دست و گریباں ہونے لگیں تو پھر دوسری دفعہ ڈنڈے والے پیر سائیں تشریف لائے ان پیروں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ آتے خوف کے لبادے میں اور جاتے عوامی جوش کے دباو میں جس کے پیچھے سیاسی جماعتوں کا جادو عوام کے سر چڑھ کر بولتا ہے تقریباً چالیس سال ان ڈنڈے والے پیر سائیوں نے حکومت کو سنبھالے رکھا اور باقی سالوں میں یہی سیاسی جماعتیں جوتیوں میں دال بانٹتی رہیں ملک مقروض ہوتا چلا گیا ،معاشی معاشرتی حالت دن بدن برباد ہوتی چلی گئی جان مال عزت کے تحفظ میں بھی عوام مایوسی کا شکار ہے ذرائع آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہونے لگے معاشرہ چیک اینڈ بیلنس سے یکسر آزاد جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے اصولوں پر چلنے لگا امیر اور طاقتورطبقہ قوانین کو گھر کی باندی سمجھنے لگتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق نتائج بھی وصول کرتا ہے غریب بے بس رہ کر بس ظلم سہتا ہے اور آواز بلند کرے تو قانون کے شکنجے میں آ جاتا ہے ،ظلم کا نظام پھنکاریاں مارتے ہوئے ہر طرف پھیلا ہوا ہے عوام میں مایوسی بڑھ جائے تو اس میں انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے پہلے حالات پر تبصرے ہوتے ہیں پھر عملی جدوجہد انہی سیاسی موقع پرستوں کے ذریعے شروع ہوتی ہے ملک میں چونکہ گوڈے گوڈے جہالت ہے تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان ہے اس لئے عوام اور خصوصا نوجوان طبقہ جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے مواقع نہیں ملتے وہ بددل ہو کر سیاسی جماعتوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی انرجی منفی سوچ اور عمل میں ضائع کرتے ہیں جسکا انہیں احساس نہیں ہوتا سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں نے تو انہیں اپنے اقتدار کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ وقتی چہیتے بنتے ہیں اور پھر انہیں دھتکار دیا جاتا ہے ملک میں اگر سیاسی افراتفری ہو تو کوئی بھی شعبہ اپنی کارگردگی بحال نہیں رکھ سکتا معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں جس سے ملک کی مجموعی حالت تنزلی کی طرف رخ اختیار کرلیتی ہے جیسے ابھی ہمارے ملک کی حالت ہے چین نے ہم سے بعد میں آزادی حاصل کی وہ قوم نشئی تھی بری حالت میں سسکیاں لے رہی تھی لیکن سخت معاشی اصولوں نے اور بہترین منصوبہ بندی اور عمل درآمد نے کرپشن سے پاک معاشرہ بنا کر کامیابی کی راہ پر چلا دیا ۔آج وہ معاشی طور پر اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ ہمارے جیسے ملکوں کی تعمیر ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کی معاشی حالات کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے یہ سب ترقی زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کے نہ ہونے کی وجہ سے مشاہدے میں آئی۔ہم نے صرف جمہوریت کا شور مچائے رکھا سیاست کو انڈسٹری بنا دیا جہاں صرف لگانے والے کو ملتا ہے ایسی صورت حال بھی ڈنڈے والے پیر سائیں نے اپنی نگاہ حالات پر رکھی ہوئی ہے عملی طور پر یہ نہیں کہا کہ میں نے جو چلہ کاٹا ہے اس میں عوام کی حالات زار کو بہتر بنانے کے لئے غیبی اشارے ملے ہیں کہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنا اگرچہ خالص جمہوریت نہیں بلکہ کنٹرولڈ جمہوریت ہے ڈنڈے والے پیر سائیں اگر خود حرص طمع لالچ اور مفاد پرستی جیسے امراض میں مبتلا نہ ہو تو سیاسی حکومتیں ڈنڈا دیکھ کر ہی پیر سائیں کے گھٹنوں کو چھونے لگتی ہیں ان کے پیر خانے پر حاضری کے جتن کرتی ہیں اس وقت کے ڈنڈے والے پیر سائیں جو کہ خود حافظ قرآن ہیں اس کے دل میں ملک و قوم کی محبت کے ساتھ اللہ اور اس کے محبوب کی سچی محبت بھی ہے حرص طمع لالچ اور مفاد پرستی کی آلائشوں سے پاک ہے اس کی فیض نظر نے ملک کو پاوں پر کھڑا کر دیا ہے وہ حکومت وقت کی غلطی پر کھنگورے بھی مار دیتا ہے اور کبھی ارشاد بھی فرما دیتا ہے کہ ایسے کرو ایسے نہ کرو حکومت کی سرکاری محفل میں بھی ڈنڈے والے پیر سائیں دیدار کا شرف بخش دیتے ہیں ان کی موجودگی سے بہت سی چیزیں خود بخود اپنی جگہ پر آجاتی ہیں پیر سائیں کی دعا سے کرامات بھی سامنے آنے گی ہیں ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چلنے لگا ہے ان راستوں پر ملک چلانے والوں پر پیر سائیں جب چاہتے ہیں پھونک بھی مار دیتے ہیں جس کے اثرات ملک و قوم کے لیے بڑے سود مند ہوتے ہیں۔ اللہ ڈنڈے والے پیر سائیں کو جزائے خیر عطا فرمائے یہ بھی خواہش ہے کہ جب یہ اس انتظامی اور روحانی ماحول سے سبکدوش ہونے لگیں تو کئی انہی جیسا تگڑا پیر جو نہ صرف اپنے آپ کو قابو میں رکھے بلکہ اس ان سیاسی مریدوں کو بھی قابو میں رکھے جس طرح اس اب ہیں ملک کو ڈبہ پیروں نے برباد کر دیا یہ سیاسی مرید کچھ ریاضت کے بعد خود پیر بن جاتے ہیں کام کرنے کے بجائے نذرانے بٹورتے ہیں اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے انہیں پیر سائیں کی گدی تو نہیں مل سکتی لیکن یہ سجادہ نشین بن کر ہی اچھا وقت گزارتے ہیں اصل میں سیاسی نظام چیک اینڈ بیلنس کے سہارے چلتا ہے صرف کرپشن کے ذریعے نہیں لیکن ہمارے ہاں کرپشن عروج پر ہے اس کا خاتمہ نظر نہیں آتا یہ کینسر ہر جگہ پھیل چکا ہے جس کو بھی اس مرض کے آپریشن پر لگایا جائے وہ خود اس کے جراثیم کا شکا ر ہو جاتا ہے نہ پکڑائی اور نہ شنوائی ہے ڈیوٹی ایسی جگہ جہاں کمائی ہی کمائی ہے ڈنڈے والے پیر سائیں کا قوم پر ایک بڑا احسان یہ بھی ہوگا کہ وہ جلالی احکامات دیں کہ ایسے افراد کو سر عام جسمانی سزائیں دیں تاکہ معاشرے میں ڈر اور خوف کی فضا پیدا ہو اور یہ احساس ابھرے کہ یہاں کوئی پوچھنے والا بھی ہے بھٹو جیسے سیاسی خاندان کا اگر مختلف وجوہات کی بنیاد پر خاتمہ ہو سکتا ہے تو معاشرے کا خون چوسنے والوں کی صفائی کیوں نہیں ہو سکتی ڈنڈے والے پیر سائیں انہیں ابھی اپنے جلال سے بھسم کر سکتے ہیں بس کیفیت کی ضرورت ہے پہلے چار پیر جب سیاسی مریدوں میں گھل مل گئے تو ان میں بگاڑ پیدا ہو گیا پھر ڈنڈے والے پیروں کا انجام بھی سامنے ہے شکر ہے موجودہ ڈنڈے والے پیر سائیں ایسے نہیں ان کی نظر عنایت سے بہت ساری چیزیں ٹھیک ہو رہی ہیں سیاسی مریدین پیر سائیں کا کراماتی ڈنڈا اپنے سروںں پہ دیکھ کر وظائف پڑھنے میں لگے ہوئے ہیں اور کیفیات میں ہین ان مریدوں کے کردار اور گفتار میں بھی پیر سائیں کی کرشماتی جھلک نظر آرہی ہے پچھتر سالوں بعد ملک کو ایک مخلص عملی اور درد دل رکھنے والا پیر سائیں ملا ہے جس کا ڈبہ نہیں جہاں نظرانے ڈالے جاتے ہوں سائیں جی کیونکہ مریدوں سے فاصلے پر رہتے ہیں اس لیے نظام صحیح چل رہا ہے وہ جب کبھی مجالس کو رونق بخشتے ہیں تو فضا مہک جاتی ہے حالات کی رفتار میں مزید بہتری آجاتی ہے وہ ضرورت کے وقت ارشادات فرماتے ہیں ورنہ خاموشی سے اپنی نظروں سے محاسبہ کرتے ہوئے اشاروں کنایﺅں میں احکامات صادر فرماتے ہیں جن پر مریدین کو عمل کرنے کی ہدایات ہوتی ہیں۔ اللہ اس ملک کو مفاد پرستوں موقع پرستوں کی ریشہ دیوانیوں سے بچائے اور یہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چلتا رہے یہ ملک ہماری پہچان ہے ہماری آن اور شان ہے اس کے ساتھ وفاداری نبھانا لازمی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے