کالم

ڈونلڈ ٹرمپ۔ امن کی سیاست کا غیر روایتی چہرہ!

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں قیام امن کیلئے کلیدی کر دار ادا کر رہے ہیں،اگر چہ ان کا انداز ہمیشہ جارحانہ ضرور ہوتا ہے، مگر ان کے فیصلے اکثر جنگ کے خاتمے اور مکالمے کے آغاز سے جڑے نظر آتے ہیں اور وہ دنیا میں امن کا استعارہ بننے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی کوششوں سے غزہ کی تباہ حال بستیوں میں بالآخر امید کا سورج طلوع ہونے لگا ہے۔ امریکی ثالثی سے طے پانے والے معاہدے کے تحت حماس نے 20 اسرائیلی قیدی رہا کر دیے اور جواباً اسرائیل نے تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا۔ اسرائیلی افواج نے مرحلہ وار انخلا شروع کیا، اور اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا کہ آئندہ ساٹھ دنوں میں غذائی و طبی امداد کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔ جنگ بندی کے اس پہلے مرحلے کی نگرانی امریکی مبصرین کریں گے تاکہ فریقین اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔ یہ پیش رفت اس خطے میں ایک نئی سفارتی فضا کی بنیاد ہے، جہاں برسوں سے صرف دھواں، خون اور بارود کا راج رہا ہے۔دوسری جانب جنوبی ایشیا میں امن کی فضا ایک بار پھر بارود کی بُو میں گم ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر حالیہ شدید جھڑپوں نے خطے میں نئی تشویش پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کے مطابق اس تصادم میں اس کے 23 فوجی شہید ہوئے، جبکہ افغان حکام نے 58 پاکستانی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ سرحدی راستے بند، تجارت معطل اور تعلقات منجمد ہو چکے ہیں۔ ایسے نازک موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیشکش کی ہے کہ وہ اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔ ان کے الفاظ میں”میں جنگیں ختم کرنے والا ہوں، شروع کرنے والا نہیں”۔ٹرمپ کا یہ بیان محض سیاسی نعرہ نہیں ، اس کی بنیاد ان کے سابقہ عملی اقدامات پر ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ابراہیم معاہدے ان کی امن پالیسی کا سنگِ میل ثابت ہوئے۔ اسی طرح افغانستان میں دوحہ معاہدہ ٹرمپ کے دور کی سب سے نمایاں کامیابی تھی، جس کے تحت بیس سالہ طویل امریکی جنگ کے خاتمے کا فریم ورک تشکیل پایا۔ امریکی افواج کا انخلا اور طالبان کے ساتھ سیاسی بات چیت کا آغاز اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ جنگ کا کوئی عسکری حل نہیں ہوتا۔ دوحہ مذاکرات نے امن کے عمل کو ممکن بنایا، چاہے بعد کی حکومتوں نے اس تسلسل کو برقرار نہ رکھا ہو۔یورپ میں ٹرمپ نے کوسوو اور سربیا کے درمیان اقتصادی معاہدہ ممکن بنایا ایک ایسا معاہدہ جو دو دہائیوں سے دشمنی میں الجھے دونوں ممالک کے لیے نئی راہیں کھول گیا۔ اسی طرح شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی براہِ راست ملاقاتیں تاریخ میں پہلی بار ہوئیں، جنہوں نے ایٹمی تصادم کے خطرات کو وقتی طور پر کم کیا۔ ٹرمپ نے اس موقع پر کہا تھا:میں نے جنگ روکنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اور دشمن نے ہاتھ ملایا، یہی اصل جیت ہے۔ٹرمپ کے ناقدین اکثر یہ کہتے ہیں کہ ان کی پالیسیاں وقتی یا ذاتی تشہیر پر مبنی ہوتی ہیں، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور میں امریکہ نے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی، بلکہ کئی محاذ بند کیے۔ شام، عراق، لیبیا اور افغانستان — ہر محاذ پر عسکری انخلا یا کمی کا عمل ان کے فیصلوں سے جڑا تھا۔حالیہ دنوں میں غزہ کی جنگ بندی کے بعد شرم الشیخ امن کانفرنس میں ٹرمپ نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ہمراہ قیادت کی۔ تقریباً تیس ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، اور یہ اجلاس محض ہتھیاروں کے سائے میں امن کا نعرہ نہیں بلکہ بحالیِ زندگی، تعمیرِ نو اور انسانی امداد پر مرکوز رہا۔ نیتن یاہو نے ٹرمپ کے کردار کو”دہشت کی رات میں امن کی صبح”قرار دیا اور ایک بار پھر انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تجویز پیش کی۔ دوسری طرف روس اور ایران نے اس عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے میں فلسطینی ریاست کے مستقبل کا واضح تعین نہیں کیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے دہکتے محاذوں پر خاموشی کی پہلی ساعت بھی ایک بڑی جیت ہوتی ہے۔ٹرمپ کی شخصیت تضادات کا حسین امتزاج ہے ۔ جارحانہ لب و لہجہ مگر امن کی خواہش، بے ساختہ گفتگو مگر غیر معمولی سیاسی ادراک۔ وہ روایتی سفارت کاری کے قاعدوں میں یقین نہیں رکھتے؛ ان کے فیصلے اکثر اداروں کی بجائے ذاتی اعتماد، فوری نتائج اور”ڈیل میکنگ”کے اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایک طرف”غیر پیشگوئی قابل”رہنما کہلاتے ہیں، تو دوسری جانب” جرأت مند ثالث”بھی۔ ان کا انداز بیباک، بعض اوقات متنازع ضرور ہے، مگر وہ خود کو ان تاریخی کرداروں میں شمار کرانا چاہتے ہیں جنہوں نے طاقت کے بجائے مکالمے کے ذریعے دنیا کو بدلا۔ ان کے مزاج میں یہ یقین گہرا پیوست ہے کہ دنیا کو طاقت سے نہیں بلکہ بات چیت اور نیت سے بدلا جا سکتا ہے۔
اب نگاہیں جنوبی ایشیا کی طرف ہیں، جہاں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑتے حالات عالمی امن کے لیے ایک نیا امتحان بن چکے ہیں۔ اگر ٹرمپ واقعی اس تنازعے میں کوئی پیش رفت کر پاتے ہیں تو یہ ان کے امن وژن کی سب سے بڑی عملی تصدیق ہو گی۔ ان کا دعویٰ کہ”میں جنگیں بند کراتا ہوں”صرف ایک سیاسی بیان نہیں رہے گا بلکہ تاریخ کے باب میں درج حقیقت بن جائے گا۔دنیا کے اس ہنگامہ خیز دور میں جب ہر طاقتور ملک اپنی عسکری برتری کے زعم میں مبتلا ہے، ٹرمپ کا یہ مؤقف کہ”امن طاقت سے نہیں، نیت سے قائم ہوتا ہے”— وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ اگر وہ اپنے موجودہ کردار کو مسلسل برقرار رکھتے ہیں، تو ممکن ہے آنے والی نسلیں انہیں اس صدی کے حقیقی امن کے علمبردار کے طور پر یاد کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے