کالم

ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے متنازعہ پہلو

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جدید دور کی عالمی سیاست کی سب سے متنازعہ اور خود پسند شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ ایسے رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں جو خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں ہر کامیابی کا کریڈٹ لینے کے شوقین ہیں، اور اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے میں ماہر ہیں ان کی سیاست نے نہ صرف امریکہ کے اندر باہم تقسیم کو بڑھایا بلکہ عالمی سطح پر بھی عدم استحکام پیدا کیا۔دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ ٹرمپ وائٹ سپریمیسی سفید فاموں کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کے بیانات اور اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ سفید فام کی برتری کے قائل ہیں وہ جنگ زدہ اور غریب ملکوں سے امریکہ اور یورپ آنے والے مہاجرین کو جرائم پیشہ قرار دے رہے ہیں جو حقیقت کے سراسر برعکس ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم، غربت اور جنگ سے بھاگ کر بہتر مستقبل کی تلاش میں آتے ہیں اور امریکہ اور یورپ کی معیشت، تعلیم، اور ٹیکنالوجی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں امیگریشن پالیسی انتہائی سخت ہے۔ انہوں نے سرحدوں پر دیوار کھڑی کی، خاندانوں کو جدا کیا اور غیر ملکی طلبہ کو خوفزدہ کیا۔ اس طرزِ عمل نے امریکہ کی روایتی برداشت، آزادی اور انسانی ہمدردی کی شناخت کو نقصان پہنچایا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی پالیسیاں تضادات سے بھری ہیں۔ انہوں نے روسی صدر پیوٹن کو خوش کرنے کے لیے یورپی اتحادیوں سے تعلقات خراب کیے، نیٹو اتحاد کو کمزور کیا، اور تجارتی تعلقات پر بھاری ٹیرف عائد کیے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور غزہ کے مسلمانوں کے قتلِ عام پر خاموشی اختیار کی۔ اندازا 64 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جانیں ضائع ہوئیں، لیکن انہوں نے نہ پہلے جنگ بندی کی کوشش کی اور نہ ہی اسرائیل پر دباؤ ڈالا۔ اسکے برعکس، انہوں نے عرب ممالک سے سفارتی فائدے اٹھائے، تحفے قبول کیے اور اپنی سیاسی مقبولیت بڑھانے کیلئے انہیں امن کے اتحادی قرار دیا۔ان کا نام نہاد مڈل ایسٹ پیس پلان بھی یکطرفہ ثابت ہوا ہے اس منصوبے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام یا اسرائیلی قبضے میں موجود علاقوں کی واپسی کی کوئی ضمانت شامل نہیں ہے درحقیقت، یہ معاہدہ اسرائیلی بالادستی کو عرب اور مسلم ممالک سے تسلیم کروانے کی کوشش ہو سکتی ہے بعد ازاں مصر میں منعقد ہونے والے نئے پیس سمٹ میں وقتی جنگ بندی کا اعلان ضرور کیا گیا، مگر اس میں ٹرمپ کا کوئی حقیقی کردار نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کے عوام کے بڑے پیمانے پر احتجاج اور عالمی دبا نے عالمی رہنماں کو مجبور کیا کہ وہ سیز فائر کی حمایت کریں، لیکن ٹرمپ نے حسبِ عادت اس کامیابی کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی۔ٹرمپ نے لندن کے مسلمان مئیر صادق خان پر بار بار تنقید کی، جس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ بلکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر یہ کہہ دیا کہ شریعت نافذ ہوسکتی ہے ان کے بیانات نے مغربی معاشروں میں نفرت اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دیا۔ برطانیہ میں اس سال13 ستمبر کو ہونے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کے مظاہرے بظاہر امیگریشن کے خلاف تھے، مگر حقیقت میں ان میں مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کی گئیں۔ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف بمباری کی، حالانکہ ایران بارہا یقین دہانی کروا چکا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔ ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات نے مشرقِ وسطی کو مزید غیر مستحکم کیا اور عالمی امن کے خطرات بڑھا دیے۔ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بھی ٹرمپ کا رویہ غیر سنجیدہ رہا۔ انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ موسمیاتی بحران کو حقیقی خطرہ نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک ماحولیاتی پالیسی محض کاروباری رکاوٹ تھی، حالانکہ سائنسدانوں نے واضح کر دیا تھا کہ زمین کو بچانے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست خود پسندی، ضد اور مفاد پرستی کا امتزاج ہے۔ وہ طاقت کے زور پر سیاست کرتے ہیں، مگر قیادت کیلئے درکار بصیرت، تحمل اور انصاف ان میں ناپید ہیں۔ ان کے دورِ اقتدار نے امریکہ کے وقار کو کمزور کیا، عالمی اتحاد کو نقصان پہنچایا، اور نفرت و تقسیم کی سیاست کو فروغ دیا۔
دنیا کو آج ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو امن، انسانیت، اور انصاف پر یقین رکھتے ہوں نہ کہ وہ جو اپنی ذاتی شہرت، طاقت اور خود نمائی کیلئے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیں اللہ کی حکمرانوں ہمیشہ کیلئے ہے اور معاشرے انصاف پسندی اور روداری سے چلتے ہیں حقیقت یہ کہ دنیا کے اکثر حکمران ٹرمپ کے موجودہ دور کو وقت گزارو کے تحت برداشت کررہے ہیں چونکہ دنیا کے مفادات واحد عالمی سپر پاور کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں نہ کہ صدر ٹرمپ کیساتھ ہیں لیکن وہ خود کو امریکہ سمجھتے ہیں اسی لئے لاکھوں افراد نے صدر ٹرمپ کے اسی بادشاہی انداز حکمرانی پر احتجاج بھی کیا ہے اکثر پاکستانی امریکن اور دوسروں کا کاروبار چین کی برامدات سے جڑا ہوا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی چین کے خلاف ٹیرف بڑھانے کی پالیسی نے انکے کاروبار کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے جو زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان کی مدد کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے