کالم

ڈو مور

پاکستان آزاد ریاست بننے کے بعد امن باہمی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں مصروف رہا جسکی وجہ سے آج پاکستان کی اہمیت کو دنیا تسلیم کر رہی ہے امریکہ کے ساتھ تعلقات تو اوائل میں ہی قائم ہو گئے تھے لیکن ان تعلقات میں وقت کے ساتھ نشیب و فراز کی بھی ایک لمبی داستان ہے مختلف ادوار میں تعلقات کا اتا ر چڑھاو تاریخ کا حصہ ہے آپ کو یاد ہوگا افغانستان جنگ میں امریکی صدر کارٹر نے جو پاکستان کو امداد دینے کا عندیہ دیا تھا اسے صدر ضیا نے مونگ پھلی کا دانہ کہہ کر قبولیت سے انکار کر دیا تھا پھر عرصے بعد کچھ تبدیلیوں کے بعد قبولیت کا اظہار کیا۔ نواز شریف کے دور حکومت میں امریکی صدر کلنٹن کے ساتھ ان کے تعلقات بہت خوشگوار تھے۔لیکن یہ بھی ہوا کہ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پاکستان پر پابندی بھی عائد کر دی ماضی میں صدر کینڈی اور جانسن کے دور حکومت میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت گرمجوشی تھی پھر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کرنے پر پاکستان امریکی حکومت کیلئے مزید اہم ملک بن گیا لیکن کچھ عرصہ بعد امریکہ نے پاکستان سے ڈو مور کا تقاضہ کر دیا اور مسلسل اس مطالبے میں اضافہ ہوتا رہا اس حقیقت کو امریکہ نے تسلیم کیے بغیر کہ پاکستان اس جنگ میں ہزاروں لوگ قربان کر چکا ہے امریکہ اپنے ملکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنگ میں مزید مطالبات کا تقاضہ کرتا رہا ماضی تو گزر چکا لیکن وقت تاریخ بن جاتا ہے حالیہ تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کا ایک قابل اعتما د دوست ہے صدر ٹرمپ دوسری دفعہ امریکہ کے صدر بنے ہیں انکا مزاج پل میں تولہ پل میں ماشہ کے مصداق ہے انڈیا کے ساتھ بہت گرمجوشی والے تعلقات تھے لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا روس سے تیل خرید کر یوکرائن جنگ کو ہوا دے رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو میں اس رویے سے نا خوش ہوں اور ٹیرف میں مزید تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اس نظریے سے دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کبھی یہ سمجھا جاتا تھا کہ مودی اور ٹرمپ بہت قریب ہیں جس کی وجہ سے مودی کو تجارتی تعلقات میں فائدہ ہوگا پی ٹی آئی بھی اسی خیال میں تھی کہ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی عمران خان کی رہائی آسان ہو جائے گی لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ امریکی صدر صرف اپنے ملک کے مفادات کو آگے بڑھاتا ہے اور کوئی چیز اس کیلئے اہم نہیں کچھ عرصہ پہلے پاک بھارت جنگ میں امریکی صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ ہے لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہماری فضائیہ نے جو کارنامے اس جنگ میں سر ابجام دئے اس سے دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف اٹھ گئیں جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ نے یہ احسان جتانا شروع کردیاکہ جنگ ان کے کہنے پہ رک گئی ورنہ دونوں ملک ایٹمی قوتیں ہیں خطرناک انجام کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے ۔ بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے بعد تجارتی کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کر دی جوایران کے ساتھ تجارتی روابط میں تھیں پاکستان پر بھی 19 فیصد ٹیرف کی تلوار لٹکا دی جو ہماریملک کی معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں حال ہی میں صدر ٹرمپ نے یہ بیان دے کر دنیا کو حیران کر دیا کہ پاکستان میں جو تیل کے ذخائر ہیں ان کو نکالنے کے لئے امریکی کمپنیوں کو بھیجا جائے گا جنکا انتخاب ہو رہا ہے جو ش خطابت میں یہ تک کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے پاکستان بھارت کو تیل بیچے یہ حقیقت ہے کہ پاکستا ن میں گیس اورتیل کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے ایک رپورٹ کے مطابق تیل کی پیداوار میں 11 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے یہ ذخائر جن کی طرف صدر ٹرمپ نے اشارہ کیا کہاں ہیں ملکی معیشت پر کیا اثرات ہیں مزید کیا ہوں گے واضح کچھ بھی نہیں صرف بیان دے کر توجہ امریکہ کی طرف مبذول کرائی گئی ۔ حالات اور واقعات کا جائزہ لیں تو ایمانداری سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ قابل اعتماد دوست ملک نہیں یہ کسی بھی وقت پینترا بدل سکتا ہے ۔ ہمارے پالیسی ساز ادار ے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور تجربات مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہیں ایران کے صدر کا دو روزہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے ایران کے ساتھ پائپ لائن کا منصوبہ ابھی پایہ تکمیل کو پہنچنا ہے امریکی پابندیاں جو ایران پر لگی ہوئی ہیں ان کی وجہ سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیںپہنچ رہا ان تمام خشک تر امریکی رویوں کو برداشت کرتے ہوئے پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں ان کی طرف سے پاکستان میںسرمایہ کاری اور منصوبوں پر کام خوش اصلوبی سے جاری ہے چین کیساتھ ایک مختلف نوعیت کے تجارتی مراسم ہیں اور امریکہ کے ساتھ الگ پاکستان ان تعلقات میں بہترین توازن کے ساتھ چل رہاہے یہی وجہ ہے کہ چین ان ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں پاکستان کی دفاعی ضروریات میں چین کی طرف سے نئی ایجادات شامل کرنا باعث فخر ہے اور قابل تحسین ہے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے چین اور پاکستان کے تعلقات بھارت اور امریکہ کو کھٹکتے ہیں ان کا بس نہیںچلتا ورنہ شیطانی حربوں سے حالات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں امریکہ دنیا کو چاچا خواہ مخواہ بنا ہوا ہے سائنسی اور دفاعی فیلڈمیں اگرچہ ان کی بہت زیادہ ایجادات ہیں معاشی طور پر بھی مضبوط ملک ہے لیکن اس طاقت کی وجہ سے نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ دیگر ممالک پر بھی اثر اندازہے اس کی مثال حالیہ بیا ن ہے کہ پاکستان میں تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت میں امریکہ کمپنیوں کا انتخاب کر رہا ہے اور وہ پاکستان جا کر کام کریں گی کیا پاکستان نے اس خواہش کا کبھی اظہار کیا جسے صدر ٹرمپ نے قبولیت کا شرف بخشا ہو اپنی طاقت کی وجہ سے وہ دیگر ممالک کو دبکا لگائے رکھتا ہے ایک وقت آئے گا جب یہ تکبرانہ بیان اور پالیسیاں اس کے زوال کا سبب بنیں گی برطانیہ کا عروج اور جرمنی کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کیا سبق سکھاتی ہیں صرف تباہی کے ساتھ شرمندگی۔ اللہ والوں نے واضح طور پر کہا ہوا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک عمومی واقعہ نہیں اس ملک میں دنیا کے فیصلے ہوا کریں گے کیونکہ اسے تائید ایزدی ہے اس کی حالت ہر طرح سے بہتر ہوگی یہ ملک صحیح معنوں میں فلاحی ریاست بنیگا حالیہ واقعات نے پاکستان کے وقار میں بہت اضافہ کیا ہے کہا جا سکتا ہے کہ بدلتے حالات ہمیں اسی جانب گامزن کرتے جا رہے ہیں جو کہ اللہ والوں کا عندیہ ہے اللہ ہمارے ملک کو ہمیشہ دشمنوں کی چال بازیوں سے محفوظ رکھے ۔ کچھ سیاسی جماعتیں ملک کے دفاعی ادارو ں کے بارے میں بغیر سوچے سمجھے بھڑاس نکالتی ہیں کیا 9 مئی کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا ؟ اگر وہ کسی سیاسی جماعت کی ایما پر نہیں ہوا تو پھر معاملہ زیادہ سنجیدہ نوعیت کا ہے کہ کس دشمن نے شہیدوں کی نشانیوں کی بے حرمتی کا منصوبہ بنایا اور پھر اسے نافذ بھی کیا اس واقعہ کو یاد کر کے بلڈ پریشر ہائی نہیں ہو جاتا کیا ہم ان کے خلاف بولنے کو حق یا عوامی آواز کہہ سکتے ہیں جو سردیوں گرمیوں میں جاگ کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ ان ملک میں بسنے والوں کی جان مال اور عزت کا تحفظ ہو سکے ہماری آزادی کا تحفظ ہو ہم آرام کی نیند اسی وجہ سے سوتے ہیں جب ملک اور قوم پر ہر وقت نثار ہونے کیلیے جاگتے ہیںاور وہ تمام ادارے جو ملک اور قوم پر ہر دم نثار ہونیوالے جاگتے ہیں وہ تمام ادارے جو ملک اور قوم کی عزت وقار امن اور استحکام کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں ہم پر ان کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے کیا ان کے ماں باپ بیوی بچے عزیز و اقارب نہیں ہوتے وہ خاتون جو بیوگی کی زندگی گزارتی ہے اور بچے یتیم ہو کر وقت کے تھپیڑوں کی نذر ہو جاتے ہیں کیا ہمارے نہیں ان پر جو قیامت گزرتی ہے اس کا احساس ہمیں کیوں نہیں خدارا بند کریں یہ نفرت پھیلانے کی باتیں ان شہدا اور غازیوں کو سلام جنہوں نے ہمیں بچانے کیلئے اپنی جانیں ملک اور قوم پر قربان کیں اللہ اس ملک کی حفاظت انہیں لوگوں کے ذریعے کرتا ہے ان کی عزت کریں احترام کریں اوران کی زندگی کی وعائیں مانگیںاللہ ہمیں جزباتیت کے بجائے صحیح سوچ اور عمل سے نوازے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے