اداریہ کالم

کئی یورپی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کی توثیق

تین اہم یورپی ممالک کی جانب سے فلسطین کو بطور آزادریاست تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس اعلان پر اسرائیل کی طرف سے سخت مایوسی اور رد عمل سامنے آیا ہے،جس کے بعد یقینا خطے میں مزید ہلچل بڑھنے کا امکان بھی ہے۔قبل ازیں 25مئی کو ان تینوں ممالک نے فلسطین کوآزاد ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ تھا جس پر اسرائیل نے ان ممالک سے اپنے سفیر واپس بلالئے تھے۔اب اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے منگل 28مئی کے روز باضابطہ فلسطین کو بطور ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا ہے ۔ اسرائیل اس فیصلے پر خوب سیخ پا ہوا ہے ، آئر لینڈ کے وزیرِ خارجہ مائیکل مارٹن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یورپی یونین غزہ میں اسرائیلی جنگ پر اسرائیل کےخلاف پابندیوں پر غور کر رہا ہے،اسرائیل عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ نہیں مانتا تو وہ پابندیوں کیلئے تیار رہے، فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے والے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 145ہوگئی ہے ،ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کی قرارداد مسترد کردی ،فرانس کی پارلیمنٹ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے بلائے گئے اجلاس کے دوران فلسطینی پرچم لہرانے والے رکن اسمبلی کو دو ہفتوں کےلئے معطل کر دیا ہے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ اس طرح کا قدم "جذبات” پر مبنی نہیں ہونا چاہیے،یورپی یونین اور عرب ممالک کے وزرا خارجہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے، رفح سمیت غزہ میں جنگ بند کی جائے اور انسانی امدا دکی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس سارے عمل میں اہم بات یہ ہے کہ یورپی وزرا خارجہ کے اجلاس میں اسرائیل پر پابندیوں کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے،کئی یورپی سفیروں نے کہا ہے کہ برسلز نے اسرائیل کیلئے الٹی میٹم جاری کرنے کی تیاری کرلی ہے ، اسرائیل عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتا تو اسے معاشی تعلقات کے خاتمے سمیت دیگر پابندیوں کیلئے تیار رہنا پڑے گا ۔ادھر آسٹریا اور جرمنی کے علاوہ تمام ممالک کے وزرا خارجہ اس تجویز سے متفق نظر آئے ۔سلووینیہ نے کہا ہے کہ وہ جمعرات کے روز اپنے فیصلے کا اعلان کرے گا کہ آیا وہ بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لے گا۔ کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے غزہ جنگ پر کہا ہے کہ نام نہاد طاقتور جمہوری ممالک غزہ پر اسرائیل کے مظالم کی مخالفت سے قاصر ہیں۔ ناروے کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی توثیق کردی گئی ہے، نارویجین وزیر خارجہ ایسپین بارتھ ایدے نے اس اقدام کوناروے فلسطین تعلقات کے لئے ایک خاص دن قرار دیا ہے، اور بتایا کہ ناروے 30 سال سے زیادہ عرصے سے فلسطینی ریاست کا سب سے بڑا حامی رہا ہے ۔اس سے قبل، ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا کہ اس طرح کی پہچان امن کے لئے انتہائی ضروری ہے، یہ اقدام کسی کے خلاف نہیںاور مستقبل میں فلسطینی ریاست کے ساتھ ساتھ رہنے کا واحد راستہ ہے۔ایک طرف دنیا امن کے لئے کوشاں ہے تو دوسری طرف وحشی نیتن یاہو،خون ریزی سے نہیں رک رہا۔گزشتہ روز بھی اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے ایک بار پھر رفح کے خیموں میں مقیم فلسطینیوں پر بمباری کردی ،جس کے نتیجے میں مزید 41فلسطینی شہید ہوگئے، اقوام متحدہ میں فلسطینی مہاجرین کی بہبود کے ادارے اونرانے کہا ہے کہ اتوار کے روز رفح میں خیموں پر اسرائیلی فضائی حملوں میں 200 افراد شہید ہوئے تھے جن میں بیشتر خواتین اور بچے تھے، اونرا کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر نے ورچوئل کانفرنس میں بتایا کہ عالمی امدادی ذرائع نے ہماری ٹیموں کو بتایا کہ حملے میں 200افراد شہید ہوئے۔ صیہونی فورسز کے طیاروں نے رفح میں ایک بار پھر خیموں پر طیاروں سے بمباری اور ٹینکوں سے گولہ باری کردی ، اسرائیلی طیاروں نے رفح کے مغربی علاقے المواسی میں پناہ گزینوں کی خیمہ بستی کو نشانہ بنایا جس میں13خواتین سمیت 21فلسطینی شہید ہوگئے، رفح کے مغربی علاقوں میں بمباری سے 7افراد شہید ہوئے، اسی طرح اسرائیلی فورسز نے جبالیہ کیمپ کے مغرب میں واقع الفلوجہ کے علاقے پر بھی بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور زخمی ہوگئے، رفح کے آخری دوبڑے اسپتالوں میں سے ایک کویتی اسپتال نے بھی اسرائیلی طیاروں کے حملوں کے بعد کام بند کردیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے رفح میں خیموں پر اسرائیلی بمباری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسکی فوری تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے رفح میں خیموں پر اسرائیلی فضائی حملے پر کہا ہے کہ اس کیلئے لفظ سانحہ انتہائی چھوٹا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن غزہ کے رفح میں ہونے والی ہلاکتوں پر آنکھیں بندنہیں کر رہے ہیں تاہم مہلک اسرائیلی حملے کے بعد ابھی تک امریکی پالیسی تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نےرفح حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں خوف اور تکالیف کا سلسلہ بند کیا جائے، جرمن چانسلر الاف شلز نے بھی حملے کو سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی لازمی طور پر تحقیقات کی جانی چاہئے ۔ کینیڈین وزیرِ خارجہ میلانی جولی نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم فلسطینیوں کا قتل کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ انہوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کے وقت بھی انسانیت کے کچھ اصولوں کی پابندی کی جاتی ہے لیکن رفح میں جو مناظر ہمیں دیکھنے کو ملے وہ دل دہلا دینے والے ہیں، فلسطینیوں کے پاس اب کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں ہے۔
ہیٹ ویو،موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ
حالیہ دنوں میںپاکستان ،بنگلہ دیش اور انڈیا سمیت جنوبی ایشیا ئی خطے کے چند ممالک شدید گرمی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ماہرین اسے موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔گزشتہ روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید گرمی کے اوسطا ً26 اضافی دن کا تجربہ کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرمی، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔یہ رپورٹ ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ کلائمیٹ سینٹر، ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نیٹ ورک اور کلائمیٹ سینٹرل نے شائع کی ہے۔رپورٹ میں دنیا بھر موسم کی شدت میں اضافے میں گلوبل وارمنگ کے کردار کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس تحقیق کےلئے سائنسدانوں نے 1991سے2020ءکا دورانیہ استعمال کیا تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ اس مدت کے دوران ہر ملک کےلئے 10 فیصد کے اندر کیا درجہ حرارت شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے 15 مئی 2024 تک گزشتہ 12 ماہ کا جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس مدت کے دوران درجہ حرارت پہلے کے مقابلے میں کتنا کم یا زیادہ رہا۔ اس دوران انتہائی گرم دنوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ انسانوں کی وجہ سے ہی موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ ہوا اور دنیا کے تقریبا ًتمام مقامات پر شدید گرمی میں اوسطاً 26 دن کا اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ12 مہینوں میں6.3ارب افراد نے کم از کم 31 شدید گرمی کے دنوں کا تجربہ کیا۔مجموعی طور پرہر براعظم کے 90 مختلف ممالک میں 76 شدید گرمی کی لہریں ریکارڈ کی گئیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے