کالم

کارڈ کلچر

کارڈ انگرےزی زبان کا لفظ ہے ۔ انگرےزی لغت مےں کارڈ کی تعرےف سخت کاغذ کے ٹکڑے کی حےثےت سے کی گئی ہے ،جس پر لکھائی کے ساتھ ساتھ طباعت بھی کی جا سکتی ہے اور اسے تہنےتی پےغامات کےلئے بھی استعمال کےا جا سکتا ہے ۔نہ جانے کاغذ کا ےہ چھوٹا سا مستطےل ٹکڑا کب اےجاد ہوا ،اس کی اےجاد کے بارے تو ہمارا نالج کمزور اور حتمی معلومات تک رسائی سے قاصر ہے لےکن فی زمانہ اس نے اےک کلچر کی نمائندگی شروع کر دی ہے جسے اگر کارڈ کلچر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔اس دور جدےد مےں بھی کارڈ کی اہمےت سے صرف نظر نہےں کےا جا سکتا ۔سابقہ وزےر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے وطن عزےز مےں شناختی کارڈ کا اجراءکروا کے قوم کو اےک شناخت عطا کی ۔اب تو شناختی کارڈ اتنا ضروری ہے کہ اس کی عدم موجودگی مےں کہےں بھی شنوائی نہےں اور کوئی بھی دستاوےز اس کے بغےر تکمےلی مراحل تک نہےں پہنچ سکتی لےکن اس سائنسی اور کمپےوٹر دور مےں بھی وطن عزےز مےں بہت سے اےسے لوگ موجود ہےں جن کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں مےں ہے، اس نعمت سے ابھی تک مستفےض نہےں ہو سکے ۔دنےا و مافےہا سے بے خبر ان لوگوں کی تساہل پسندی تو اےسے ہی ہے جےسے پرانے وقتوں مےں کسی دور افتادہ دےہاتی نے کسی شہر جانے والے کو اےک خط سپرد ڈاک کرنے کےلئے دےا ۔پندرہ بےس دن بعد اس نے پوچھا کہ لےٹر کو ڈاک باکس مےں ڈال دےا تھا تو اس نے جواباً خط جےب سے نکالتے ہوئے کہا کہ تمہےں اتنی جلدی ہے تو اسے خود ڈاک باکس مےں ڈال لےنا ۔آج ہر شعبہ زندگی مےں کارڈ شناخت کا ذرےعہ بن چکا ہے۔سرکاری دفاتراور نجی اداروں کے ملازمےن کے گلے مےں ڈوری سے بندھا ہوا دےدہ زےب کارڈ پر نام اور عہدہ شناخت کےلئے کافی ہوتا ہے جو سائلےن کو پوچھ گچھ سے بچاتا ہے ۔تعلےمی بورڈ کے پےپرز مارکنگ کرنے والے اساتذہ کو بورڈ نے شناخت کےلئے کارڈ جاری کئے راقم کا اےک دوست وہی کارڈ گلے مےں پہنے سےالکوٹ کےنٹ جا رہا تھا آرمی چےک پوسٹ پر آرمی مےن نے اسے شناخت کےلئے روکا تو اس نے گلے مےں لٹکا ہوا کارڈ دکھاےا فوجی کو عہدے کی سمجھ تو نہ آ سکی وہ کہنے لگا ےار تم اتنے بڑے آفےسر تو دکھائی نہےں دےتے جو کارڈ ظاہر کر رہا ہے ۔بہرحال کارڈ کی اےک طولانی فہرست ہے ،ان کا دائرہ کار وسےع ہے ،اسے تمام جزئےات اور تفصےل کے ساتھ احاطہ تحرےر مےں لانا ممکن نہےں ۔آپ بنک جائےں تو وہاں کرےڈٹ کارڈ ،وےزا کارڈ اور اے ٹی اےم کارڈ ملےں گے ۔پی ٹی سی اےل دفتر کالنگ کارڈ مہےا ہوں گے ،نجی پے فون کمپنےوں کے کارڈ جبکہ موبائل کمپنےوں کے اپنے کارڈ ہےں ۔انٹر نےٹ کارڈ تو بے تحاشا بک رہے ہےں ۔ان سب کارڈوں کی مشترکہ خصوصےت ےہ ہے کہ سکرےچ کےجئےے اور مطلوبہ سہولت حاصل کےجئےے ۔دنےا بھر مےں ہر کاروبار کرےڈٹ کارڈوں اور چےکوں کے ذرےعے ہوتا ہے کسی زمانے مےں راشن کارڈوں کی بڑی اہمےت و افادےت تھی جب انہی کارڈوں کی بدولت وطن عزےز کے ہر باسی کو چےنی اور گھی ملنا ممکن ہوتا سابقہ عےدالفطر پر فلم اےکٹرسوں کی فخش تصاوےر والے عےد کارڈوں کی بازار مےں فروخت پر پابندی کے حوالے سے خبرےں نظر سے گزری تھےں بھلے وقتوں کی بات ہے کہ وزٹننگ کارڈ جسے بزنس کارڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے مشہور شخصےات ،سرماےہ دار ،اعلیٰ کاروباری حضرات اور افسر شاہی اپنا تعارفی کارڈ فقط قرےب ترےن اور شناسا لوگوں کو ہی دےا کرتے تھے ۔اب تو ان کارڈوں کی اےک لامتناہی فہرست ہے اب تو قصابوں نے بھی اپنے کارڈ چھپوائے ہوئے ہےں تا کہ فون پر آرڈرز بک کرائے جا سکےں ۔راقم کے پاس بھی ان گنت احباب کے کارڈ جمع ہےں جب کبھی کونوں کھدروں مےں ان کارڈوں کو دےکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ زےادہ تر کارڈ اجنبی بن چکے ہےں اور حافظہ سے نکل چکا ہے کہ ےہ کب کس نے اور کس جگہ دوران ملاقات عناےت کئے اب ان کارڈوں کی حےثےت بھی بانٹنے اور جمع کرنے سے زےادہ کچھ نہےں ان سے اچھا تو تاش کا جوکر ہوتا ہے جو کم از کم ترپ مےں تو استعمال ہوتا ہے ۔سےاسی لےڈران بھی اکثر بےان داغتے رہتے ہےں مےں نے بہت سے پتے بچا کر رکھے ہےں جب کارڈ کے پورے پتے استعمال کروں گا تو سےاسی حرےف کو دن مےں تارے نظر آنے لگےں گے ترقی پذےر ممالک بھی امرےکی ہاتھ کے کارڈ ہےں جب چاہتے ہےں ان سے کام لےتے ہےں اور بےکار ہونے پر انہےں خود ختم کرنے کے اسباب پےدا کر دےتے ہےں جن سے بچاﺅ ممکن نہےں ہوتا ،دہشت گرد گروپس مےں بھی ان کے کارڈ ہی ہےں جو ڈرون حملوں کی کامےابی کے ضامن ہےں جنرل ضےاءالحق کے دور اقتدار مےں جالندھر کارڈ بڑا مشہور ہوا اس زمانے مےں ےہ مذاق عام تھا اور اےک دوسرے سے پوچھا جاتا تھا کہ جناب بھی کہےں ”جےل اندر“ ےعنی جالندھر کے رہنے والے تو نہےں مغربی ممالک کا گرےن کارڈ تو اپنی اہمےت کے لحاظ سے سب کارڈوں پر بھاری نظر آتا ہے اور اس کے حصول کےلئے تو سو جتن کئے جاتے ہےں ہمارے ہاں مغرب مخالفےن کو بھی اس کی آفر کی جائے تو وہ بھی اسے شرف قبولےت بخشنے مےں عار محسوس نہ کرےں اور بعض ناقد تو اےسے ہےں جنہوں نے خفےہ طور پر گرےن کارڈ کا حصول ہی زندگی کا مقصد بنا کر اپنی آدھی عمرےں اس کی خواہش کی تکمےل مےں گزار دےں ۔قلم اپنے بہاﺅ مےں بہتا جا رہا ہے تو ناظرےن راقم نے قصداً اےک انتہائی دلچسپ کارڈ کا ذکر ان کارڈوں کے ساتھ نہےں کےا کےونکہ اس کارڈ کو ہی مےں نے آج کے کالم کےلئے چنا ہے اس کارڈ کا حصول اور اس تک رسائی کبھی ہماری تمنا بھی رہی ہے قارئےن متجسس نہ ہوں ےہی تو ہے پرےس کارڈ ۔پرےس اور کارڈ لازم و ملزوم ہےں ےہ اےسا کارڈ ہے جو اوپر سے حکومت کے خلاف اور اندر سے حکومت کے حق مےں استعمال ہوتا ہے تا ہم ےہ کارڈ مقبولےت مےں سب سے اہم ہے کےونکہ ےہ پولےس سے بچانے کا ضامن بھی ہے ۔راقم نے اےک موٹر سائےکل سوار جس کی نمبر پلےٹ پر پرےس لکھا ہوا تھا سے درےافت کےا کہ آپ کس اخبار سے وابستہ ہےں تو اس نے بڑے فخر سے جواب دےا کہ مےرے پاس پرےس کارڈ ہے مےں صحافی ہوں مےرا چالان نہےں ہو سکتا اس کے پاس اےسے اخبار کا کارڈ تھا جو کم ازکم مےری نظر سے نہےں گزرا تھا ۔راقم نے تمام جستجو اور تحقےق کے بعد ےہی نتےجہ اخذ کےا کہ پےشہ صحافت مےں داخل ہونے کےلئے کوئی طرےقہ کار نہےں ،کوئی تعلےمی معےارمقرر نہےں ڈاکٹر ،انجنئےر ،اساتذہ اور دےگر فنی ماہرےن تو خصوصی تربےت حاصؒ کرنے کے بعد اپنے شعبوں مےں قدم رکھتے ہےں لےکن ےہاں کوئی قانون ،امتےاز اور قاعدہ وضع نہےں ۔صحافت کےلئے کچھ ضابطہ اور طرےقہ کار وضع کر لےا جاتا تو جس بحران سے آج صحافت دوچار ہے ہر گز دوچار نہ ہوتی ۔ صحافت کے موجودہ انداز سے دکھائی دےتا ہے کہ جس کو کوئی کاروبار نہےں ملتا ،کہےں جائے پناہ نہےں ملتی وہ صحافت کی طرف ہی رخ کرتا ہے ےہی وجہ ہے اخبارات کے ہےڈ آفس پرےس کارڈ جاری کرتے وقت کارڈ وصول کرنے والے کی تعلےمی قابلےت کا خےال کرتے ہےں اور نہ ہی اس کے پس منظر کو دےکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہےں ۔وہ تو شائد اشتہارات کی مد مےں وصولی اور دولت کی چمک کو ہی ترجےح دےتے ہےں ۔کارڈ جاری کرتے وقت اخبارات کے مالکان پر ےہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کسی ورکنگ جرنلسٹ کے تجربہ اور تعلےمی قابلےت کو مد نظر رکھےں تا کہ اخبارات کی ساکھ خراب نہ ہو افسوس کہ اےسا ہوتا نہےں بلکہ ےہ رجحان دن بدن تقوےت پکڑ رہا ہے کہ ورکنگ جرنلسٹ کو نظر انداز اور نان پروفےشنل افراد کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے صحافت ملکی معاملات اور اہم امور مےں چوتھے ستون کی حےثےت رکھتی ہے قبولےت عام اور بقائے دوام کے خواہشمندان صحافت مےں نوواردوں کے متعلق دےکھنا چاہےے کہ آےا وہ صحافت کے مطالب سے بھی واقف ہےں ،لفظ صحافت لکھ سکتے ہےں کہےں وہ ان پڑھ اور جاہل مطلق تو نہےں کہےں پڑھا تھا کہ لندن مےں پاکستان کے اےک اخبار پر خبر چلی کہ ٹوری پارٹی کے لےڈر کےمرون کی بےوی سانتھا نے لےبر پارٹی جوائن کر لی ہے ےعنی وہ لےبر پارٹی مےں چلی گئی ہےں حالانکہ خبر ےہ تھی کہ ڈےوڈ کےمرون کی بےوی سانتھا کو بچہ ہونے والا تھا اور وہ لےبر درد ،زہ مےں تھی لےکن ہمارے کسی کہنہ مشق صحافی نے کےا خوبصورت ترجمہ کےا ۔صحافت مےں نووارد فرد اعلیٰ تعلےم ےافتہ نہ سہی تعلےم ےافتہ تو ضرور ہونا چاہےے تھوڑی بہت ذہانت بھی اس مےں ہونی چاہےے اور وہ سمجھ بوجھ کا تو مالک ہو اےسا فرد مطالعہ اور تربےت سے اپنے کو بہتر بنا سکتا ہے مسلسل لگن کے ساتھ کام کرنے سے بھی وہ صحافت کے اسرارورموز سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے لےکن ہمارے ہاں فقط اےک پرےس کارڈ کو ہی صحافت مےں عملی کام کرنے کا لائسنس تصور کر لےا جاتا ہے ۔اخباری مالکان پرےس کارڈ جاری کرتے وقت صحافت کے تقدس کا تو ضرور خےال رکھےں ان کے اس قدم سے صحافت پر خوشگوار اثرات مرتب ہونے کے امکانات روشن ہو سکتے ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے