کالم

کامیاب اجلاس اور بھارت کا جارحانہ رویہ

شنگھائی تعاون تنظیم کے23 ویں سربراہی اجلاس کامیابی سے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا۔آ ئیدہ کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کی صدارت روس کے سپرد کر دی گئی۔ بھارت کے پاکستان کے خلاف برسوں سے جاری منفی پروپیگنڈے کے باوجود مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو علاقائی اور دنیا میںسرخروہی ملی۔ رکن مملک کا نئے اقتصادی مکالمے پر اتفاق ہوا۔ 8 نکاتی مشترکہ اعلامیے پر دستخط ہو گئے۔ اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دینے پر اتفاق ہوا ۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف فلسطین پر کوئی متفقہ قرارداد تو نہ پاس کرا سکے، البتہ اسرائیل سفاکیت کا مسئلہ اُٹھاتے ہوئے کہا غزہ میں جارحیت ایک المیہ ہے۔ عالمی براردری کو درندگی روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہونگے۔ مشرق وسطی میں پائیدار امن کے لیے آزاد فلسطین ریاست کا قیام ضروری ہے۔شہباز شریف نے امیر جماعت اسلامی کی اپیل پر پاکستانی عوام کی ترجمانی کر کے بڑا اچھا کیا۔ شہباز شریف مذید کہا پاکستان خطے میں امن و استحکام چاہتا ہے۔ افغان سر زمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنا ہوگا۔ بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے کہا کہ امن کا مطلب دہشت و انتہاپسندی کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا ہے۔ہمیں ایماندرانہ گفتگو کی ضرورت ہے۔ اعتماد کی کمی، دوستی اور اچھے ہمسائیوں کے اصولوں میں کوئی کمی ہے تو خود احتسابی کرنی ہو گی۔ پہلی بات کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو افغانستان کی بات کرنے کی بجائے بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کی بات کرنا چاہےے تھی۔بھارت نے بلوچستان کے علیحدگی پسند وں کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے ہیں ۔ بھارتی جاسوس گل بوشن کی کاروائیوں سے دنیا واقف ہے۔اخباری خبر کے مطابق کچھ دن پہلے اسلحہ سمیت بھارتی جاسوس کراچی میں گرفتار ہوا۔ افغانستان سے تو امریکہ کے بنائے ہوئے تحریک طالبان پاکستان دہشت گردی کر رہے ہیں۔ جن کو افغانستان کو جلد ختم کرنے کے افغانستان سے ڈاریکٹ بات چیت کر کے اس معاملے کو حل کرنا چاہےے۔بھارت نے توبین القوامی طور پر تسلیم شدہ معاہدے کے تحت ہندوستان کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی مہم چلائی، جو اب بھی جاری ہے۔ بھارت نے مسلمانوںکی اکثریت والی ریاست کشمیرپر فوجی ایکشن سے پاکستان میں شامل ہونے سے روک دیا۔جب پاک بھارت جنگ شروع ہوئی اور موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان نے آزاد کرایا۔ جنگ جاری رہتی تو پورا کشمیر جموں و کشمیر آزاد کر ا لیا جاتا۔مگرچانکیہ سیاسی چال چلتے ہوئے جنگ کے خاتمے کے لیے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ گئے۔ کہا کہ امن قائم ہونے کے بعد کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی۔ کشمیری بھارت یا پاکستان، اپنی آزادرائے سے جس میں چائیں شامل ہو جائیں۔ اقوام متحدہ نے رائے شماری کےلئے درجنوں قراردادیں منظور کیں ۔مگر بھارتی حکمران اقوام متحدہ کے سامنے کیے گئے وعدہ سے مکر گئے۔ بلکہ 5اگست 2019ءکو مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھارتی آئین میں موجود دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر کے جعلی طور پر بھارت کا حصہ بنا لیا۔بھارت پاکستان میں کشمیر مسئلہ پر کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ اندرا گاندھی نے بنگالی قوم پرست غدارِ پاکستان شیخ مجیب کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو فوجی حملہ کر پاکستان سے علیحدہ کیا۔ بڑے فخر سے کہا کہ میں نے مسلمانوں سے ہندوستان پر ہزار سالہ حکومت کرنے کا بدلہ لے لیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒکا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ اللہ کا کرنا کہ بنگلہ دیش کے عوام نے بھارت کو بنگلہ دیش سے نکال کر اندرا سے بدلہ لیتے ہوئے دو قومی نظریہ کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستانی سبز ہلالی جھنڈا لہرا دیا۔اندرا گاندھی، شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان امن معاہدے کے باوجود پاکستان کو بچانے والے اور پاکستانی فوج کاساتھ دینے والے جماعت اسلامی کے مرکزی لیڈروں کو بھارت نے اپنی پٹھو حسینہ واجد کے حکم پر پھانسیوں پر چھڑایا۔ شملہ معاہدے کے باوجود کشمیر میں فوجی کاروائی کر کے سیاہ چن سمیت کئی اُونچی چوٹیوں پر فوج کے ذریعے قبضہ کیا۔ایٹم بم بنایا تو پاکستان کو ختم کرنے کی دھمکیوں پر دھمکیاں دیں۔ اللہ کاکرنا کہ پاکستان بھی ایٹمی قوت بن گیا۔تو بھارت کا دھمکیوں والا بخار اُترا۔ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کے بعد بھارت کے حکمرانوں نے کہنا شروع کیا کہ پاکستان کے پہلے دو ٹکڑے کئے تھے۔ اب دس ٹکڑے کریں گے۔ بھارت نے دو پڑوسی ملکوں پاکستان چین کے ترقیاتی منصوبے سی پیک کو سبوثاز کرنے کے اعلایہ فنڈ مختص کئے۔ دہشت گرد ہٹلر صفت مودی وزیر اعظم بھارت جو آر ایس ایس بھارتی دہشت گرد تنظیم کا بنیادی ممبر ہے، نے بھارت کے یوم آزادی کی تقریب میں لا ل قلعہ دہلی کی دیوا پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ مجھے بلوچستان اور گلگت و بلتستان کے علیحدگی پسندوں سے فوجی مدد کرنے کی ٹیلیفون کالیں آرہی ہیں۔ کالین کیا آنی ہے بھارت تو پاکستان میں پہلے سے دہشت کر رہا ہے۔ اس کا ثبوت کل بھوشن بھارتی جاسوس کے حلفیہ بیا نات کوتو پوری دنیا نے سنے ہیں۔اور بھارت اپنے ارد گرد پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش نیپال بھوٹان ،برما وغیرہ پر فوجی کاروائی سے حملہ اور قبضہ کر کے اکھنڈ بھارت بنانے کا اعلان کرچکا ہے۔ اس لیے ان سارے ملکوں والے اکھنڈ بھارت کا نقشہ بھارت کی پارلیمنٹ کے ماتھے پر کندہ کر دیا ہے۔ اس طرح تو ہندوستان پر ہزار سال زائد مدت تک حکمرانی کرنے والے پاکستانی حکمرانوں کو بھی جن کے آباﺅ اجداد نے پورے برصغیر پر حکومت کی تھی، جس میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش ،افغانستان، نیپال بھوٹان،برما وغیرہ شامل تھے بھی نقشہ بنا کر اپنے پارلیمنٹ کے ماتھے پر کندہ کرنا چاہےے۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی شنگھائی تعاون تنظیم میں امن اور اچھے ہمسایہ والے بیان کو کوئی بھی امن پسند انسان” منہ پر رام رام اور بغل میں چھری“ والی کہاوت کو سامنے رکھ کر کیا سمجھے گا؟ اس کے علاوہ بھارتی حکمرانوں کے اقدامات جو اُوپر بیان کیے گئے ہیں کو سامنے رکھ کر اسے کوئی بھی بندہ سفید چھوٹ اور دھوکا نہیں تو کیا تصور کرے گا؟ حقیقت یہ کہ ہندوستان کی تقسیم ایک فطرتی اور تاریخی عمل تھا۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بڑی سوچ سمجھ اور آل انڈیا کانگریس میں کئی سال شامل رہ کر ہندوﺅں کو اچھی طرح سمجھ کر دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔اور تاریخی حقیقت انگریزوں اور دنیا کے سامنے بیان کی تھی۔اسی کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم ہوئی تھی ۔ وہ حقیت یہ ہے۔”ہم مسلمان ہندوﺅں سے علیحدہ قوم ہیں،ہمارا کلچر، ہماری ثقافت، ہماری تاریخ، اور ہمارا کھانا پینا، ہمارا معاشرہ سب کچھ ان سے مختلف ہے“۔ اس حقیقت کو بھارتی حکمرانوں کو تسلیم کر کے اچھے پڑوسیوں کی طرح امن و امان سے رہنا چاہےے۔ اپنے اپنے ملکوں کے عوام کی ترقی خوشحال کے اقدام کرنا چاہےے۔ ایک دوسرے کو ختم کرنے کے ڈاکڑائین سے رجوع کرنا چاہےے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کر کشمیر میں رائے شماری کرانا چاہےے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ بھارت تسلیم کرے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ سیاست اور منافقت کرنے کے بجائے بھارت دل سے پاکستان کو تسلیم کرے۔ پاکستان کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈا بند کرے ۔پھر پاکستان ا ور بھارت اچھے ہمسائیوں کی طرح رہ سکیں گے۔ ایسا کرنے سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے کے فوائد بھارت اور پاکستان سمیٹ سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے