کالم

کتاب، کیبنٹ اور کنارا

ہر چیز آن لائن ہو گئی ہے۔کتابیں، لائبریریاں، لیکچرز، یہاں تک کہ جذبے بھی۔ انسان لمحوں میں چیٹ جی پی ٹی سے مقالے لکھوا لیتا ہے اور ڈیجیٹل لائبریری سے سیکنڈز میں علم کی دنیا کو ڈاؤن لوڈ کر لیتا ہے لیکن!ایک لمحہ رکئے۔ ایک پرسکون، خاموش گوشہ آج بھی باقی ہے۔ میرا دل اس لمحے میں دھڑکتا ہے جب میں اپنے گھر کے قریب واقعہ جھیل کنارے پر اس چھوٹے سے لکڑی کے کیبنٹ کو دیکھتا ہوں، جو ایک چھوٹی سی لائبریری ہے جسے ہم بک کیبنٹ کہتے ہیں۔یہ بک کیبنٹ کسی بڑی اسکیم، فنڈنگ یا سرکاری سرپرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ اعتماد، شوقِ مطالعہ اور مہذب سماج کی علامت ہے۔ لیک سائیڈ کے سرسبز کنارے پر خاموشی سے کھڑی یہ لائبریری بظاہر چھوٹی ہے، لیکن اس کے اندر علم، تہذیب اور محبت کا ایک سمندر موجزن ہے۔ یہاں قریباً سو کے قریب کتابیں رکھی گئی ہیں، جن میں ناول، شاعری، سوانح حیات اور فکشن سے لے کر بچوں کے ادبی خزانے تک سب کچھ موجود ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کوئی نگرانی نہیں، کوئی کیمرہ نہیں، کوئی چوکیدار نہیں۔ ہاں، مگر ایک کنٹینر ہے جس میں چاکلیٹس، سویٹس، اور چھوٹی چھوٹی ٹوکریوں میں مٹھاس رکھی گئی ہے۔ لائبریری کا اصول بڑا سادہ ہے: کتاب پڑھنی ہے تو لے جائیے، پڑھنے کے بعد واپس رکھ دیجیے۔ سویٹ کھانی ہے تو کھا لیجیے، ادائیگی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں اعتماد سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔یہ منظر صرف ایک لائبریری کا نہیں، یہ معاشرے کے ایک روشن پہلو کا عکس ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انٹرنیٹ یا مصنوعی ذہانت (AI) نے کتاب کو ختم کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی کتاب کی کشش کم نہیں ہوئی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی کتابوں کے بغیر خود کو ادھوری محسوس کرتی ہے۔ انٹرنیٹ پر پڑھنے اور کاغذ پر چھپی تحریر پڑھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کاغذ کی خوشبو، صفحے پلٹنے کی آواز اور لفظوں کا لمس کچھ ایسا سحر طاری کرتا ہے جو سکرین کبھی نہیں دے سکتی۔اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آج کے دور میں کتاب کون پڑھتا ہے؟میرا جواب ہوتا ہے: وہی لوگ جو دل سے سوچتے ہیں، اور ذہن سے محسوس کرتے ہیں۔یہ چھوٹا سا کیبنٹ دراصل انسان کے اس فطری رجحان کا مظہر ہے کہ وہ علم کو قید نہیں کرنا چاہتا، بلکہ بانٹنا چاہتا ہے۔یہ جگہ صرف کتابوں کی نہیں، جذبوں کی لائبریری ہے۔ لوگ یہاں آ کر صرف مطالعہ نہیں کرتے بلکہ خاموشی سے ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں۔ کوئی کتاب ادھار لے کر بھاگتا نہیں، کوئی سویٹ کھا کر انکار نہیں کرتا، بلکہ ہر کوئی اپنی جگہ پر ایک محافظ، ایک قاری اور ایک لائبریرین ہے۔
ایک مرتبہ ایک بزرگ کو میں نے دیکھا جو اپنی خود لکھی نظموں کی چھوٹی سی کتاب یہاں رکھ کر گئے۔ پوچھنے پر بولے، اگر ایک شخص بھی پڑھ لے تو میری محنت وصول ہو جائے گی۔یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے کہ کتاب کبھی پرانی نہیں ہوتی، صرف اس کا اندازِ پیشکش بدلتا ہے۔ AI یا انٹرنیٹ جتنا بھی ترقی کرے، اصل علم وہی ہے جو دل تک پہنچے۔ یہ کیبنٹ، یہ کنٹینر، اور یہ کنارے، سب اس بات کے گواہ ہیں کہ کتابیں آج بھی زندہ ہیں، اور ان سے محبت کرنے والے آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ سینئر صحافی،حیدر جاوید سید، سعید آسی ، رف کلاسرا، سجاد اظہر طارق عبداللہ سہیل اور تاریخ دان عزیز شیخ کے ذکر کے بغیر یہ تحریر ادھوری رہے گی یہ محض کتب دوست نہیں، بلکہ ان سب کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے خود بھی کتابیں لکھی اور ان سے عشق بھی کیا ان کی ذاتی لائبریریاں محض الماریوں کا مجموعہ نہیں بلکہ فکری خزانوں کی انجمن ہیں۔ہر نئی آنے والی کتاب پر ان کی نظر رہتی ہے، چاہے وہ کسی بڑے پبلشر کی تازہ اشاعت ہو یا پرانی کتب فروش گلیوں کے کسی بکس ٹال کی گرد آلود شیلف سے جھانکتی کوئی بوسیدہ جلد یہ حضرات کتاب کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ان کے نزدیک مطالعہ محض مشغلہ نہیں، ایک تہذیبی فریضہ ہے۔یہ اہلِ قلم، کتاب کو صرف علم کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ تہذیب، شعور اور سماجی بیداری کا استعارہ مانتے ہیں۔ کتابوں کے عشقِ میں ڈوبے یہ چراغ آج بھی کتاب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ورنہ معاشرے کب کا لفظوں سے خالی ہو چکا ہوتا۔شاید آنے والا وقت پھر کتابوں کا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انسانی ذہن اس مصنوعی ہنگامے سے نکل کر پھر سے اصل کی طرف لوٹنے لگے کیونکہ آخر میں ہم سب کو ایک پرسکون کنارے کی ضرورت ہوتی ہے،جہاں ایک چھوٹی سی کتاب اور ایک ٹافی ہمیں زندگی کا اصل ذائقہ یاد دلا دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے