کالم

کراچی کی سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل

پاکستان کا سب سے بڑا گنجان آباد شہر کراچی اور تجارتی مرکز گزشتہ کئی مہینوں سے شدید سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کے بحران کا شکار ہے۔ شہر کی تقریبا 90% سڑکیں ناقص منصوبہ بندی، تاخیر زدہ ترقیاتی منصوبوں اور ناقص انتظامی صلاحیتوں کے باعث تباہ ہو چکی ہیں۔ زیر زمین سیوریج لائنوں، پانی کی پائپ لائنوں اور گیس کنکشنز جیسے بنیادی منصوبے مسلسل التوا کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے کئی سڑکیں مہینوں یا سالوں تک کھدی رہتی ہیں۔ نتیجتا، شہر کے مکین روزانہ ٹریفک جام، گڑھوں سے بھری سڑکوں اور پیدل چلنے کے لیے مناسب راستوں کی عدم دستیابی سے دوچار ہیں، جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔کراچی کے بنیادی ڈھانچے کی خرابی کی ایک بڑی وجہ مختلف سرکاری محکموں کی ناقص ہم آہنگی ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (KWSB) سب سے زیادہ بدانتظامی اور کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ادارے کے افسران اور سیاسی سرپرستی رکھنے والے ٹھیکیدار جان بوجھ کر منصوبوں میں تاخیر کرتے ہیں تاکہ حکومت سے اضافی فنڈز حاصل کیے جا سکیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کھودی گئی سڑکوں کو مہینوں تک چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے شہریوں کو نہ صرف سفری مشکلات بلکہ جان لیوا حادثات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ دنوں میں یونیورسٹی روڈ اور شاہراہِ فیصل پر پانی کی پائپ لائنوں کے پھٹنے کے متعدد واقعات دیکھے گئے، جس سے ٹریفک کے نظام میں شدید خلل پیدا ہوا ۔ کراچی کی سڑکوں کی مرمت اور تعمیرِ نو کےلئے ہر سال 10 سے 20 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، لیکن کوئی واضح بہتری دیکھنے میں نہیں آتی۔ رپورٹس کے مطابق ان فنڈز کا ایک بڑا حصہ رشوت، کمیشن اور ناقص منصوبہ بندی کی نذر ہو جاتا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں میں اکثر کم معیار کے ایرانی اسفالٹ کا استعمال کیا جاتا ہے، جو چند ماہ بعد ہی خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹھیکیدار سرکاری افسران کو پہلے سے رشوت دے کر ٹینڈر حاصل کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں کمزور معیار کے منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے اندازہ لگایا ہے کہ سڑکوں کی مرمت کے لیے کم از کم 4 ارب روپے درکار ہیں، لیکن بجٹ اقساط کی صورت میں جاری ہونے کی وجہ سے کئی اہم منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔شہر کی تباہ حال سڑکوں کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافروں کےلئے متبادل راستے نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ چکی ہے۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سوار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، کیونکہ گڑھوں اور نامکمل تعمیراتی کاموں کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ بارش کے موسم میں صورتحال اور بھی خراب ہو جاتی ہے، جب کھدی ہوئی سڑکیں پانی سے بھر جاتی ہیں، اور ان میں کئی شہری اپنی جان تک گنوا بیٹھتے ہیں۔پیدل چلنے والے افراد کےلئے صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کراچی کے بیشتر علاقوں میں کوئی مناسب فٹ پاتھ موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شہریوں کو گاڑیوں کے بیچ چلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بچے، بزرگ اور معذور افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کےلئے سڑکوں پر چلنا نہایت خطرناک ہو چکا ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے حادثات کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔حکومت کی جانب سے اس بحران کا کوئی مثر حل نہیں نکالا گیا۔ حال ہی میں کراچی کی تباہ شدہ سڑکوں اور پلوں کی مرمت کےلئے 1.5 ارب روپے کے فنڈز جاری کیے گئے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان فنڈز کی سخت نگرانی نہ کی گئی تو یہ بھی سابقہ منصوبوں کی طرح کرپشن کی نذر ہو جائیں گے۔ ملیر ایکسپریس وے جیسا منصوبہ، جسے ادھورے تعمیراتی کام کے باوجود عوام کے لیے کھول دیا گیا، اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح حکام بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھاتے ہیں۔کراچی کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کےلئے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر کرپشن کے خاتمے اور شفافیت کو یقینی بنانے کےلئے سخت اقدامات کرے۔ ترقیاتی منصوبوں کےلئے جاری ہونے والے بجٹ کو بروقت فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ منصوبے تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ آزاد مانیٹرنگ ٹیموں کو تعینات کیا جانا چاہیے جو سڑکوں کی تعمیر کے معیار کو یقینی بنائیں۔ اگر ان اصلاحات کو فوری طور پر نافذ نہ کیا گیا تو کراچی کی سڑکیں مکمل طور پر ناکارہ ہو جائیں گی، اور شہر مزید بدحالی کا شکار ہو جائے گا۔کراچی کی موجودہ سڑکوں کی صورتحال حکومتی ناکامی، بدانتظامی، اور کرپشن کی عکاس ہے۔ ممکن اور فوری حل کےلئے ضروری ہے کہ اداروں میں کرپشن کے خاتمے اور شفافیت کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کو بروقت جاری کیا جائے۔ آزاد مانیٹرنگ ٹیمیں تعینات کی جائیں جو تعمیراتی کام کی نگرانی کریں۔ سیوریج، پانی اور گیس لائنوں کی تنصیب کے منصوبوں کو مقررہ مدت میں مکمل کیا جائے تاکہ سڑکوں کو بار بار کھودنے سے بچا جا سکے۔ اگر متعلقہ حکام نے فوری کارروائی نہ کی تو اس کے نتائج مزید سنگین ہو سکتے ہیں، اور کراچی کی اہمیت ایک معاشی مرکز کے طور پر مزید کم ہو جائے گی۔ شہریوں کو بہتر سڑکیں اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، بصورتِ دیگر یہ شہر رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے