اداریہ کالم

کرب و بلا کا پیغام امت مسلمہ کے نام

idaria

اسلامی سال کا پہلا مہینہ ماہ محرم الحرام اور آج یوم عاشورہ اپنی تمام ترشان وشوکت عظمت ورفعت کے ساتھ امت مسلمہ پر سایہ افگن ہے۔ماہ محرم باالخصوص یوم عاشورا کو ایک خاص مقام واہمیت حاصل ہے۔یہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔ اسلام کی آمد سے قبل اہل عرب اس کی حرمت اس کی عظمت کے قائل تھے۔احترام کا یہ حال تھا کہ وہ حرمت والے ان مہینوں میں اپنی جاری وساری جنگیں بھی موقوف کر دیا کرتے تھے۔ تاریخ انسانی کے مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاںہوتی ہے کہ اس ماہ مقدس میں بہت سارے اہم واقعات ایسے رونما ہوئے جنہیں انسانی تاریخ بھلانے سے قاصر اور مجبور ہے۔ باالخصوص سیدالشہداءامام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت رہتی دنیا تک بلا تفریق مذہب وملت کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔ اب تک اس دنیا میں واقعات تو بہت سے رونما ہوئے لیکن واقعہ کربلا ایک ایسا نقش جسے کبھی کوئی بھلا سکے گا نہ مٹا سکے گا۔ہر سال جب بھی یہ دن آتا ہے مسلمانان ِعالم کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزارسجدوں سے دیتا ہے نجات ، کیوں کہ اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھ لینا بڑا ہی آسان اور سہل ہے لیکن دشمنان دین کی چھاتی پر اسلام کے علم کو گاڑدینا مصطفی ﷺکے نواسے فاطمہؓ کے پیارے خاندان نبوی کے چشم وچراغ سیدنا امام حسینؓ کا ہی کام تھا ۔ بعض لوگ اپنے زبان وبیان میں واقعہ کربلا کو انصاف کے پیمانے کو چھوڑ کر حادثہ کربلا کہہ دیتے ہیں ۔جس میں کسی پلان کا دخل نہ ہو وہ حادثہ ہوتا ہے جو اچانک ہوتا ہے۔جبکہ واقعہ اچانک نہیں ہوتا، مشیت ایزدی بہت پہلے سے اسکو رونما کرنے والی ہوتی ہے۔ ورنہ ذرا سوچئے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گلیوں میں چل رہے ہیں، اپنے دوش مبارک پر حسن وحسینؓ کو بٹھائے ہوئے اپنے گیسوئے مبارک ان کے ہاتھوں میں دے دیئے۔ دنیا تو یہی دیکھ رہی تھی کہ شہزادے دوش انوار پر سوار ہوکر گیسوئے مبارک ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں لیکن مشیت ایزدی یہ آواز دے رہی تھی حسین سیکھ لو سیکھ لو کل تمہیں امت کی بانگ ڈور سنبھالنی ہوگی ۔امت محمدیہ کی لگام تمہارے ہاتھوں میں ہوگی۔اتنا تو ہم بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یزید پوری امت کو بیعت کراتا، اگر ایک امام حسینؓ نہ ہوتے ، وہ جھوٹ میں حق کی تائید چاہتا تھا۔ حضرت ابراہیم خلیل نے میدان منیٰ میں جس عظیم قربانی کی ابتدا کی تھی کرب وبلا کے اس تپتے ہوئے بے آب وگیاہ صحرا اور چلچلاتی ہوئی دھوپ میں امام عالی مقامؓ نے اس عظیم قربانی کی انتہا کر دی ،علامہ اقبالؒ نے بال جبریل میں اسی کی عکاسی بڑے پیارے انداز میں بیان کی ہے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہیں اسمعٰیلؑ
بعض کوتاہ نظرواقعہ کر بلا کو نہ جانے کس کس نظرسے دیکھتے ہیںلیکن تاریخ ِکربلا کے کچھ اہم واقعات ایسے ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ امام عالی مقام ؓ کے خلوص اور جذبہ ایثار میں کوئی کمی نہیں تھی۔کربلا کی تاریخ میں ایک ایسی تاریک رات بھی آئی تھی کہ امام عالی مقامؓ نے اپنے جانثار ساتھیوں کو خیمہ میں اکٹھا کرکے جلتے ہوئے چراغ کو گل کر کے فرمایا: اے میرے ساتھیوں،یزید اور ان جیسوں شر پسندوں کی دشمنی مجھ سے ہے اسلئے آپ سے اپیل ہے کہ آپ حضرات میرے اور میرے اہل وعیال کے خاطر اپنی اپنی جانیں مشکل میں نہ ڈالیں ، اسی لیے میں نے چراغ کو بجھا دیا ہے کہ شاید آپ میں سے کسی کو جلتے ہوئے چراغ کی روشنی میں جاتے ہوئے شرم آئے تو بجھے ہوئے چراغ کی تاریکی میں نکل جاو¿،میری طرف سے مکمل اجازت ہے۔ مگرکربلا کی اس عظیم تاریخ پر امام کے ان جانثاروں نے یک زباں ہو کربڑا ہی پیارا جواب دیا: آپ کیسی بات کرتے ہیں یہاں تو ہم رات کی تاریکی میں نکل جائیں گے،یہاں تو ہمیں کوئی دیکھ نہیں سکتا ۔ لیکن کل کیا ہوگا جب خورشیدرسالت کی جلوہ گری ہو گی ۔ اولین وآخرین کا اجماع ہوگا۔ اگلے پچھلے سب اکٹھا ہوں گے۔ ہم مصطفیﷺ کے دین اور اس کے تحفظ وبقا کی خاطر اپنی جانیں جانِ آفریں کے سپرد کرکے وفادار تو ہوسکتے ہیں پر بھاگ کر ہم غدار نہیں ہو سکتے ۔آخر کار حق وباطل کا معرکہ وجود میں آیا ،آپ نے حق کی خاطر جان جان آفریں کے سپرد کرکے حق وصداقت اور جرا¿ت وبہادری کی بہترین تاریخ رقم فرمادی جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔حضرت امام حسین ؓ نے دین مصطفوی ﷺکی حفاظت اور اس کے تحفظ وبقا کی خاطر گھر کا گھر اورکنبے کا کنبہ، راہ حق میں نذرانہ پیش کر کے دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا ہے کہ جب مذہب وملت کی تحفظ کی بات آجائے تو جان جان آفرین کے سپرد کرکے حیات ابدی کا مالک بن جانا مگر باطل قوتوں کے آگے سر نہ جھکانا ۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمان اسی جذبہ ایثار اور جذبہ شہادت کی پیروی میںبرسہا برس سے اپنی جانوںکے نذرانے تو پیش کر رہے ہیں لیکن شر اور باطل کی نمائندہ قوتوں کے آگے سر نہیں جھکا رہے یہی درس کربلا ہے،اسی میں امت کی بقا ہے،چاہے شر کی کوئی داخلی قوت ہو یا پھر خارجی ،حق کی خاطر ڈٹ جاناجذبہ حسینی کی آبیاری ہے۔
سینیٹ سے اہم بلوں کی منظوری
گزشتہ روزچیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس ہوا جس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظوری کیلئے پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔ بل کے تحت سرکاری حیثیت میں سلامتی اور مفاد سے متعلق حاصل معلومات کا انکشاف کرنے والے غیر مجاز شخص کو 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔ آرمی چیف یا بااختیار افسر کی اجازت سے معلومات ظاہر کرنے والے شخص کو سزا نہیں ہوگی۔ بل کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ، استعفے اور برطرفی کے 2 سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا، حساس ڈیوٹی پر تعینات شخص 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا، سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنےوالے کو 2 سال تک سخت سزا ہوگی۔ پاک فوج کیخلاف الیکٹرانک کرائم میں ملوث شخص کو الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا، پاکستان اور افواج پاکستان کے مفادکے خلاف انکشاف کرنے والے اہلکار سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔ حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی اہلکار ڈیجیٹل، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر کوئی ایسی بات نہیں کرے گا جس کا مقصد فوج کو اسکینڈلائز کرنا یا اس کی تضحیک کرنا ہو، جرم کرنے والے کے خلاف کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت ہوگی، آرمی ایکٹ کے تحت کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ اہلکار اگرفوج کو بدنام کرے یا اس کے خلاف نفرت انگیزی پھیلائے تو اسے آرمی ایکٹ کے تحت 2 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔بل کی منظوری کے طریقہ کار کے خلاف رہنما پیپلزپارٹی و سینیٹر رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اعتراض کیا۔سینیٹ سے بلوں کی منظوری خوش آئند اقدام ہے۔ جیسا کہ 9 مئی کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ سے بھی اب واضح ہو چکا ہے کہ 9 مئی کو فوجی حساس تنصیبات پر ایک منصوبہ بندی کے تحت حملہ کیا گیا جس میں ایک سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل شواہد‘ موبائل ویڈیوز‘ کلوز سرکٹ فوٹیج اور موبائل فونز سے کئے گئے رابطے ثابت ہو چکے ہیں تو اس حساس نوعیت کے واقعہ میں ملوث ملزمان کیخلاف فوری قانونی کارروائی عمل میں لانے میں اب کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو قومی اداروں اور حساس تنصیبات پر حملہ کرنے کی جرا¿ت نہ ہو۔ اس مسئلے پر سیاست کی بجائے خالصتاً انصاف کا کیس بنایا جائے۔ 9 مئی کے واقعہ کو تقریباً اڑھائی ماہ گزر چکے ہیں جبکہ اس واقعہ میں ملوث سینکڑوں ملزمان کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے مگر ان کے خلاف ابھی تک قانونی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ یہ قومی سلامتی اور ریاستی اداروں کی ساکھ کا مسئلہ ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔یقیناپاک فوج نے ملکی سرحدوں پراپنے دفاع کو ناقابل تسخیربنایاہواہے،فوج کے خلاف پروپیگنڈاکرنے والوں کو سزا ضرور ملنی چاہیے اوراس کی آڑ میں جو بھی عناصر سازشیں کرتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے