کالم

کرسیاں، ڈنڈے اور ہر طرف جھنڈے ہی جھنڈے

latif khokhar

آج پھر سے وہی گھسی پٹی پرانی، کروڑوں اربوں کے اخراجات ،رنگ برنگے بینروں، پوسٹروں، ڈھول ڈھماکوں ، فلک شگاف میڈیاءپبلسٹی کے باوجود امید پاکستان نامی کمپنی بہادر کی مشترکہ پیشکش جب پھر سے بری طرح فلاپ ہوئی تو بے ساختہ فلم شعلے کے مشہور ڈایئلاگ بے ساختہ زبان پر آگئے۔
کتنے بندے تھے کالیا ۔ اب تیرا کیا ہو گا کالیا؟
یقین فرمائیں،میاں نواز شریف کا سخت ناقد ہونے کے باوجود مجھے اندر سے کچھ نا کچھ یقین تھا کہ چھ سال کی طویل خاموشی کے بعد میاں صاحب قوم کو کچھ ایسا اچھوتا پروگرام دیں گے کہ ہم لوگ عش عش کر اٹھیں گے اور سچ پوچھیں تو آج مسلم لیگ نون کا بہت بڑاٹرننگ پوائنٹ بھی تھا کہ میاں صاحب آج کوئی اتنا شاندار اور جاندار پروگرام پیش کرتے کہ ناقدین کے چھکے چھوٹ جاتے۔ لیکن سچ پوچھیں تو ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ لگتا ایسے تھا جیسے آجکل کی پریس کانفرنسوں، ٹاک شوز میں آ کر جیسے نو مئی کے واقعات پر شرم و ندامت کا اظہار کرتے اپنی اپنی گردنیں چھڑوانے والے پی ٹی آئی کے کچھ لوگ نظر آتے ہیں، آج میاں صاحب نے بھی عین وہی سب کچھ کیا۔ کچھ بھی تو نیا نہیں تھا، وہی لکھی پڑھی پرچیاں، وہی چٹکلے، وہی آئی لو یو ٹو، ہاں اس شو میں کچھ طے شدہ جذباتی مناظر،بھی فیڈ کئے گئے تھے عام لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے کی خاطر؛ لیکن جو یہاں صاف نظر آ رہا تھا وہ ایک مکمل” سرنڈر“ نظر آ رہا تھا۔ صرف میاں صاحب نے اپنی گستاخیوں اپنی غلطیوں پر اپنے کانوں کو ہاتھ نہیں لگایا؛ پریکٹیکلی ناک سے لکیریں نہیں نکالیں لیکن سر عام یہ اقرار کیا کہ چالیس سال کی کھجل خواری کے بعد انہوں نے یہ تو سیکھ لیا ہے کہ وہ آئندہ کبھی کسی خلائی مخلوق کسی ڈاہڈے بندے کا نام لینے کی جرات نہیں کریں گے۔ سب کو مل جل کر کام کرنا ہو گا اور الحمدللہ وہ اسی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہیں، وہ نئے نئے عہد و پیمان بھی کرتے رہے اور ساتھ ترلے منتیں کہ بس ایک دفعہ معاف کر دیں آئندہ کوئی غلطی کوتاہی نہیں ہو گی۔ میاں صاحب اگر یہی کچھ کرنا تھا تو اتنی لمبی لمبی جلا وطنیاں، سزائیں، جیلیں، تاعمر کی نااہلیاں اور مفروریاں کس کام کی۔ سچ پوچھیں تو میاں صاحب آپ نے نا صرف قوم کو مایوس کیا بلکہ آج ان تمام ن لیگی سنجیدہ کارکنوں کو بھی زیرو کر دیا جنہوں نے آپکے بیانیے کی خاطر کیا کیا کشت نہیں کاٹے اس موقع پر مجھے میرے وکیل بھائی شیر افضل مروت کے حالیہ مشہور لطیفے "پروگرام تو ۔۔۔۔ گیا“کی طرح آج آپ کا مزاحمتی نظریہ ”سویلین بالا دستی“اور”ووٹ کو عزت دو“بھی یقینا جدھر سے آیا تھا ادھر ہی ۔۔۔ گیا۔ افسوس ہوس اقتدار میں ہمارے لیڈران کس کس حد تک گر جاتے ہیں۔ کیا کیا خواب دکھاتے اور من مرضی کی کیا کیا تعبیریں پاتے ہیں۔
باقی جہاں تک جلسے کے انعقاد، انتظامات کا تعلق ہے تو جلسہ انتظامیہ یقینا داد کی مستحق ہے ، اچھا کراو¿ڈ اکھٹا کیا، پھر بھی جس طاقت کا مظاہرہ متوقع تھا وہ نہیں ہو سکا۔ جلسہ گاہ کی ترتیب بڑے ٹیکنیکل انداز میں کی گئی، ہر کرسی کی ساتھ دس فٹ ڈنڈے کےساتھ بڑے بڑے جھنڈے نے بڑے بڑوں کی بولتی بند کر دی، جونہی چکا چوند سرچ لائٹس آن ہوئیں زمین کا منظر ان جھنڈوں کی مہربانی سے غائب ہو گیا۔ بس ہر طرف جھنڈے ہی جھنڈے، لگتا تھا اتنا بڑا جم غفیر ان جھنڈوں کے نیچے دب کر آج اس نئے پاکستان کی شاید کوئی جدید تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اسی لیے جھنڈے زیادہ اور بندے کم، نہ روایتی جوش و خروش نہ وہ فلک شگاف نعرے۔ ہاں ترانے اور گیت کچھ اچھے تھے جن میں سے مریم نواز صاحبہ نے عیسیٰ خیلوی کا گیت بڑے شوق و انہماق سے سنا لیکن اس سب کچھ کے باوجود میں بھی کہتا ہوں کہ جلسہ خاصہ بڑا تھا اور تو اور اس پر جناب حامد میر صاحب نے بھی میڈیا پر آ کر بڑا دعویٰ کر دیا ہے کہ جلسہ پی ٹی آئی کے جلسوں سے بڑا تھا۔ تاہم میر صاحب کے دعوے کے باوجود یہ سوال بار بار پوچھا جائے گا کہ کتنے بندے تھے کالیا۔
جلسہ تو گیو؛ اب سزائیں باقی ہیں اور اسوقت بھی میاں صاحب کو ایک نیب ریفرنس میں سات سال کی سزا ہو چکی ہے جسمیں میاں صاحب عدالتوں کی مہربانی سے اپنے علاج کی غرض سے چار ہفتوں کی مشروط ضمانت پر ملک سے باہر گئے اور پھر چار سال وہ علاج ہی چلتا رہا۔ عدالتوں نے انہیں مفرور بھی قرار دیا لیکن میاں صاحب تعمیل احکامات عدالت کی بجائے آج اپنی من مرضی سے اپنی سیاسی بقا کی خاطر واپس آئے لیکن قوم سے خطاب میں اپنے علاج پر شاید ایک لفظ تک نہیں کہا، اب دیکھنا یہ ہے کہ انکی سزاو¿ں کا کیا ہوتا ہے؟ لیکن میرے ذاتی خیال میں میاں صاحب کا پیر بڑا ہی کامل ہے کیونکہ اگر وہ نو سال کی تاخیر کے باوجود طیارہ سازش کیس میں وہ چودہ سالہ سزا سے باعزت بری قرار دیئے جا سکتے ہیں تو ان بے چارے سات سالوں کی کیا مجال ہے کہ انکے راستے کی وہ کسی طرح بھی رکاوٹ بن سکے۔ ویلکم میاں صاحب، پھر سے ایک سٹیج تیار ہے، ایک جھوٹا سچا مقابلہ ضرور ہونا ہے جس کےلئے میدان بھی حاضر ہے، لیکن گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں آپکے مد مقابل کے ہاتھ پیر باندھ کر چھوڑ دیا گیا ہے، بس آپ آئیں اور اپنی جیت سمیٹیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے