اداریہ کالم

کرغز حکومت غیر ملکی طلبہ کی حفاظت یقینی بنائے

کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں مقامی افراد کے غیر ملکی طلبا ءجن میں پاکستانی بھی شامل ہیں کی رہائش گاہوں پر بلووں سے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے،مقامی انتہا پسندوں پر مشتمل مشتعل ہجوم نے تعلیم حاصل کرنے کےلئے جانے والے پاکستانی،بھارتی اور بنگلہ دیشی طلبہ کے ہاسٹلوں پر حملہ کر کے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہے،مقامی شرپسندوں نے میڈیکل یونیورسٹیوں کے متعدد ہاسٹلز اور پاکستانیوں سمیت غیر ملکی طلبہ کی نجی رہائش گاہوں پر حملے ،توڑ پھوڑ اور، تشدد کا نشانہ بنایا جس سے پاکستانیوں سمیت 14طالب علم زخمی ہوگئے،یہ صورتحال مصری اور کرغز طلبہ میں لڑائی کے بعد خراب ہوئی اورغصہ پاکستانی طلبہ پر نکالا گیا ۔مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب کرغز طلبہ کی پاکستان اور مصری طلبہ کےساتھ لڑائی کے بعد اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔لڑائی کا یہ واقعہ13 مئی کو پیش آیا تھا۔شوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کے رد عمل میںجمعہ کی رات متعدد کرغز شہری سڑکوں پر نکل آئے اور غیر ملکی لڑکیوں اور لڑکوں کے ہاسٹلز اور دیگر رہائش گاہوں میں ڈنڈوں اور سوٹوں سمیت گھس کر توڑ پھوڑ کے علاوہ لڑکیوں سمیت متعدد طلبہ پر تشدد کیا۔ان ہوسٹلوں میں زیادہ تر پاکستانی رہائش پذیر ہیں تاہم کم تعداد میں بنگلہ دیش اور مصر کے طلبا بھی رہائش پذیر ہیں۔ چند انڈین اور پاکستانی طلبا نے ہوسٹلوں، فلیٹوں کے علاوہ گھر بھی کرائے پر لے رکھے ہیں۔اس ساری صورتحال میںمقامی پولیس کہیں نظر نہ آئی ۔ واقعہ کی اطلاعات پاکستان انڈیا ،اور بنگلہ دیش میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ سفارتخانے نے طلبہ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہاسٹل کے اندر رہیں۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں کرغزستان کے سفارت خانے کے ناظم الامور کو ڈمارش کےلئے دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور انھیں گذشتہ روز کرغز جمہوریہ میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا کے ساتھ ہونے والے واقعات کے متعلق حکومت پاکستان کی گہری تشویش سے آگاہ کیا گیا اور ان سے پاکستانی طلبا اور ملک میں مقیم دیگر پاکستانی شہریوں کی حفاظت اور سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔کر غزستان میں بڑی تعداد میں پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی نوجوان تعلیم کے حصول کےلئے موجود ہیں ،میڈیکل تعلیم کےلئے یہ ملک طلبہ میں کافی مقبول اور سستا بھی ہے۔ اس ملک میں میڈیکل کی معیاری تعلیم یورپ اور امریکہ کی جامعات کے مقابلے میں انتہائی کم فیسیں ادا کرکے حاصل کی جا سکتی ہے جسکی وجہ سے بڑی تعداد میں طلبہ کرغزستان کی جامعات میں داخلے کےلئے درخواستیں جمع کراتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ان یونیورسٹیز کی ڈگری کو عالمی ادارہ صحت سمیت عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔میڈیکل تعلیم اخراجات یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔کرغستان میں میڈیکل کی تعلیم کیلئے سکونت پذیر پاکستانی طلبا سمیت بھارتی، مصری اور بنگلہ دیشی طالب علمو ں پر مقامی طلبا کے جتھوں کا پرتشدد حملہ نہ صرف ان ملکوں کے بلکہ عالمی میڈیا کی خبروں میں بھی نمایاں طور پر سامنے آرہا ہے۔ یہ واقعہ جس توجہ کا متقاضی تھا اس کے پیش نظر پاکستانی سفارت خانے بارے شکایت بھی سامنے آئی ہیں،واپس آنے طلبہ نے جو صورتحال رپورٹ کی ہے وہ تشویش والی بات ہے۔طلبہ کے بقول ان کے ہاتھ جو آ رہا تھا اس کی قومیت پوچھے بغیر اسے مار رہے تھے۔ مشتعل افراد نہ صرف توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کر رہے تھے بلکہ مسلسل اپنے ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر لائیو بھی تھے۔جہاں جہاں انھیں پاکستانیوں کا پتا لگا ہے، ان ہوسٹلوں، فلیٹوں اور گھروں تک میں گھس کر ان پر بھی حملہ کیا گیا اور طلبہ کو مارا پیٹا گیا ہے۔ جو طالبعلم لڑکیاں انھیں باہر گھومتی یا کہیں آتی جاتی نظر آئیں ہیں ان کے ساتھ بھی بدتمیزی اور ہراساں کیا گیا ہے۔ بشکیک انتظامیہ نے اس معاملے میں نہ صرف غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ تماشائی بنی رہی،پولیس کو بروقت ایکش کےلئے متحرک کر دیا جاتا تو یقینا یہ صورت حال پیش نہ آتی اورنہ ہی کرغستان حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا۔وزیراعظم شہباز شریف نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں بشکیک، کرغزستان میں پاکستانی طلبا کی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ انھوں میں نے پاکستان کے سفیر کو ہدایت کی ہے کہ وہ طلبا کو تمام ضروری مدد فراہم کریں۔ بنگلہ دیش اور مصر سمیت دنیا کے کئی ممالک کے طالبعلم اور ان کے والدین جو اپنے ممالک میں میڈیکل کی مہنگی تعلیم اور دیگر اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے وہ نسبتاً بلکہ خاصے کم اخراجات میں کرغرستان کا رخ کرتے ہیں،اب ان پر تشدد واقعات کا اس پر منفی اثرپڑے گا۔ لہٰذا کرغز حکومت غیر ملکی طلبہ کی حفاظت یقینی بنائے،یہ اس کی ذمہ داری ہے۔
قہر کی گرمی میں مرمت کی آڑ میں بجلی کی طویل لوڈشیدنگ
پورا ملک گرمی کی شدید لہرکی زد میں آگیا ہے جس کی شدت میں آنیوالے دنوں کے دوران بتدریج اضافہ متوقع ہے۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین کے مطابق گرمی کی یہ لہر بدترین ثابت ہو سکتی ہے۔یقینا اس پر انسانی قابو نہیں پا سکتا مگر ایسے میں بجلی بلاجواز طویل بندش دوہرا قہر ڈھا رہی ہے۔تعمیر و مرمت کے نام پرچھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا نیا ڈھنگ نکال لیا گیا ہے،راولپنڈی اسلام میں روزانہ کی بنیا دپر نصف آبادی سے زیادہ علاقے صبح آٹھ بجے دن دو بجے تک بند کر دیئے جاتے۔یہ معمول کئی ماہ سے جاری ہے،دیہی علاقوں یہ بندش اس سے بھی زیادہ کی جاتی ہے،اس پہ کمال ہوشیاری یہ دکھائی جا رہی ہے کہ ایسا ضروری مرمت کے تحت کیا جا رہاہے۔اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ وہ عوام کے حال پہ رحم کریں،نت نئے ڈھنگ بجلی بندش سے اجتناب کرتا جائے۔خاص کر اگلے چند دنوں میں یہ روش برقرار رکھی گئی تو مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ محکمہ موسمیات ذرائع کے مطابق اس لہر کے دوران درجہ حرارت پنجاب کے اکثر علاقوں میں کئی روز تک 48سے 50ڈگری سے تجاوز کرنے کا اندیشہ ظاہر چکے ہے جبکہ سندھ کے بالائی اور وسطی علاقوں میں درجہ حرارت 50سے 52ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی ریکارڈ ہو سکتا ہے۔ گرمی کی یہ لہر پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین ثابت ہو سکتی ہے جو 31مئی تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ لاہور میں اگلے ہفتے درجہ حرارت طویل عرصہ کے بعد 47سے 48درجہ سینٹی گریڈ تک ریکارڈ ہو سکتا ہے۔ اسکے سبب پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹنے کے خدشات لاحق ہیں۔ اسلام آباد راولپنڈی اور اردگرد کے علاقوں میں درجہ حرارت 43سے 45ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کا خدشہ ہے۔ بلوچستان کے علاقوں سبی جیکب آباد آوران تربت میں پارہ 50ڈگری تک تجاوز کر سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پشاور سمیت بیشتر اضلاع میں درجہ حرارت 44سے 46ڈگری تک جا سکتا ہے۔
پولیو کے بڑھتے کیسز پر ماہرین صحت کی تشویش
پاکستان اور افغانستان کے تین اہم علاقوں میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز پر ماہرین صحت نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے پولیو کے خاتمے کےلئے بنائے گئے ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پاک افغان حکام سے ملاقات کریں گے۔نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی)میں کام کرنے والے پولیو ماہر کا کہنا ہے کہ کراچی، کوئٹہ ، پشین، قلعہ عبداللہ، چمن اور پشاورخیبر کے علاقے پاکستان اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں پولیو وائرس کی منتقلی کا مرکز بن چکے ہیں۔ مارچ2021 تک عالمی وبا کورونا کے دوران غیر معمولی کوششوں سے ان تینوں متاثرہ مقامات پر پولیو کا مکمل خاتمہ ہوچکا تھا۔ ماہرین کے مطابق پروگرام کے شراکت داروں کی جانب سے عدم توجہ اور نوزائیدہ بچوں تک رسائی میں ناکامی کے سبب یہ وائرس پھر سے سر اٹھا رہا ہے اور پاکستان اس وقت 2019 کی صورتحال میں آگیا ہے جہاں ملک کے بیشتر علاقوں میں پولیو کیسز پائے جاتے تھے، جبکہ اس پروگرام کے احتساب سے ہی پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri