پاکستان کے ذوالفقارعلی بھٹو، لیبیا کے معمر محمد ابو منیار القذافی،عراق کے صدر صدام حسین اور سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کا شمار عالم ِ اسلام کے ایسے حکمرانوںمیں ہوتاہے جن کے دل میں مسلم امہ کے اتحادکی بڑی تڑپ تھی یہ چاروں اقوام ِ متحدہ کے پیرل اسلامی بلاک قائم کرنا چاہتے تھے وہ تیل کو بطور ِہتھیار استعمال کرکے عالمی طاقتوں کی من مانی کے آگے بند باندھنے کی خواہش رکھتے تھے ان چاروں حکمرانوں کو اس کی بھاری قیمت چکاناپڑی انہوں نے عالم ِ اسلام کا مشترکہ دفاع، ایک کرنسی اور ایک ہی لائحہ عمل تیارکرلیا تھا جو سامراجی قوتوںکو گوارا نہ ہوا پھر تاریخ نے دیکھا ذوالفقارعلی بھٹو،کرنل معمر قذافی،ر صدام حسین اورشاہ فیصل کوعبرت کی مثال بنادیا گیا عالم ِ اسلام کے چاروں رہنمائوںکی غیر فطری موت ایک ایسا سانحہ ہے جس نے مسلم امہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا کرنل معمر قذافی ( 1942 ـ 20 اکتوبر 2011) لیبیا کے ایک فوجی افسر، انقلابی، سیاست دان اور سیاسی تھیوریسٹ تھے جنہوں نے 1969 سے 2011 میں لیبیا کی باغی افواج کے ہاتھوں اپنی ہلاکت تک لیبیا پر حکومت کی بلاشبہ کرنل معمر قذافی جیسی شخصیت صدیوں بعد پیداہوتی ہے آپ 1969 سے 1977، 1977 سے 1979 تک جنرل پیپلز کانگریس کے سیکرٹری جنرل اور پھر 1979 سے 2011 تک عظیم سوشلسٹ پیپلز لیبیا عرب جماعت کے رہنما کے ظورپر ابھرکر سامنے آئے وہ ابتدائی طور پر نظریاتی طور پر عرب قوم پرستی اور عرب سوشلزم کیلئے پرعزم تھے بعد میںکرنل معمر قذافی ایک قوم پرست عرب رہنما کے طور پر اپنی شناخت کروانے میں کامیاب ہوگئے آپ لیبیا کے قریب ایک غریب بدو عرب خاندان میں پیدا ہوئے، قذافی سبھا میں اسکول کے دوران ایک عرب قوم پرست بن گئے، بعد میں بن غازی کی رائل ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ انہوں نے ایک انقلابی گروپ قائم کیا جسے فری آفیسرز موومنٹ کہا جاتا ہے جس نے 1969 کی بغاوت میں ادریس کی مغربی حمایت یافتہ سینوسی بادشاہت کو معزول کر دیا۔ کرنل معمر قذافی نے لیبیا کو اپنی انقلابی کمانڈ کونسل کے زیر انتظام ایک جمہوریہ میں تبدیل کر دیا۔ حکم نامے کے ذریعے، اس نے لیبیا کی اطالوی آبادی کو ملک بدر کر دیا اور اس کے مغربی فوجی اڈوں کو بے دخل کر دیا۔ اس نے عرب قوم پرست حکومتوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا اور پین عرب سیاسی اتحاد کی وکالت کی کرنل معمر قذافی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے لیبیا کو ایک اسلامی جدیدیت پسند ریاست بنایا اسلامی شریعت کو قانونی نظام کی بنیاد کے طور پر متعارف کرایا اور اسلامی سوشلزم کو فروغ دیا۔ اس نے تیل کی صنعت کو قومیا لیا اور ریاست کی بڑھتی ہوئی آمدنی کو فوج کو تقویت دینے، غیر ملکی انقلابیوں کو فنڈ دینے اور ہاؤس بلڈنگ، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کے منصوبوں پر زور دینے والے سماجی پروگراموں کو نافذ کرنے کیلئے استعمال کیا۔ 1973 میںانہوں نے بنیادی عوامی کانگریس کے قیام کے ساتھ ایک "مقبول انقلاب” کا آغاز کیا، جسے براہ راست جمہوریت کے نظام کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن بڑے فیصلوں پر اپناذاتی کنٹرول برقرار رکھا۔ اس نے گرین بک میں اپنی تیسری بین الاقوامی تھیوری کا خاکہ پیش کیا۔ 1977 میں، قذافی نے لیبیا کو ایک نئی سوشلسٹ ریاست میں تبدیل کر دیا جسے جماہریہ ("عوام کی ریاست”) کہا جاتا ہے۔ اس نے باضابطہ طور پر حکمرانی میں ایک علامتی کردار اپنایا لیکن وہ فوج اور انقلابی دونوں کمیٹیوں کے سربراہ رہے جو اختلاف رائے کو دبانے اور پولیسنگ کرنے کے ذمہ دار تھے۔1970 اور 1980 کی دہائیوں کے دوران، مصر اور چاڈ کے ساتھ لیبیا کے ناکام سرحدی تنازعات، غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت، اور پین ایم فلائٹ 103 اور UTA فلائٹ 772 کے بم دھماکوں کی مبینہ ذمہ داری نے کرنل معمر قذافی کو عالمی سطح پر تیزی سے الگ تھلگ کر دیا۔ اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ خاص طور پر معاندانہ تعلقات استوار ہوئے، جس کے نتیجے میں 1986 میں لیبیا پر امریکی بمباری اور اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ 1999 سے، قذافی نے پین عرب ازم سے کنارہ کشی اختیار کی، اور پین افریقی ازم اور مغربی اقوام کے ساتھ میل جول کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ 2009 سے 2010 تک افریقی یونین کے چیئرپرسن رہے۔ 2011 کی عرب بہار کے درمیان، مشرقی لیبیا میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے ملکی صورت حال خانہ جنگی تک پہنچ گئی، جس میں نیٹو نے گد مخالف کی طرف سے فوجی مداخلت کی۔اپنی شہادت سے دو برس قبل، لیبیا کے رہنما معمر قذافی نے 2009 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایک تاریخی خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے وہ سوالات اٹھائے جنہیں اکثر طاقتور ملکوں کے تجزیہ کاروں نے نظرانداز کر دیا۔ قذافی نے دنیا کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے سب سے بڑے اور پراسرار سیاسی قتلوں کے راز اب کھلنے چاہئیں اور انہوں نے واضح الفاظ میں اسرائیل پر امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا قذافی نے پرجوش انداز میں عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”جنرل اسمبلی کے صدر، مسٹر علی التریقی کو چاہیے کہ وہ صرف جنگی جرائم کی فائلیں نہ کھولیں بلکہ ان خونی سازشوں کابھی تذکرہ کریں جنہوں نے پوری دنیا کی تاریخ بدل دی۔ ہمیں بتائیںکہ پیٹریس لومومبا کو کس نے مارا اور کیوں مارا؟ وہ ایک افریقی ہیرو، آزادی کا سپاہی اور کانگو کی جدوجہد کا علمبردار تھا۔آخر کیوں اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا؟ ہم چاہتے ہیں کہ آنیوالی نسلیں سچ پڑھیں، یہ جانیں کہ ہمارے رہنماؤں کو کس طرح ایک ایک کر کے راستے سے ہٹایا گیا۔” یہ کہتے ہوئے قذافی کی آواز مزید گرج دار ہوگئی: انہوں نے شیرکی طرح دھاڑے ہوئے کہا یہ صرف لومومبا کی کہانی نہیں۔ سیکرٹری جنرل ہمرشولد کا طیارہ 1961 میں کس نے نشانہ بنایا اور کیوں؟اور پھر 1963 میں دنیا نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کا منظر دیکھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایک شخص، لی ہاروے اوسوالڈ، قاتل ہے لیکن پھر اچانک اوسوالڈ کو جیک ربی نے قتل کر دیا۔ کیوں؟ ربی کون تھا؟ وہ ایک اسرائیلی تھا، جس نے کینیڈی کے قاتل کو مار ڈالا تاکہ سچ کبھی سامنے نہ آسکے۔ پھر وہی ربی خود پراسرار حالات میں مر گیا، مقدمہ تک نہ چل سکا۔ آخر یہ سب کھیل کس نے کھیلا؟” کرنل معمرقذافی نے انگلی اٹھا کر دنیا کو یاد دلایا: پوری دنیا جانتی ہے کہ کینیڈی اسرائیل کے دیمونا نیوکلئیر ری ایکٹر کی تحقیقات کرنا چاہتے تھے۔ یہی ان کا ‘جرم’ تھا۔ یہی وہ راز ہے جسے چھپانے کیلئے تاریخ کے دھارے موڑ دئیے گئے۔’ یہ الفاظ صرف ایک تقریر نہیں تھے، بلکہ ایک چیلنج تھے ۔ طاقتوروں کیخلاف، چھپے ہوئے رازوں کیخلاف اور اس جھوٹی تاریخ کیخلاف جو نسلوں کو اندھیرے میں رکھتی ہے۔ شاید یہی جرأت، یہی صداقت اور یہی پکار قذافی کی اپنی زندگی کے چراغ کو بھی گل کر گئی ایک انتہائی منقسم شخصیت، قذافی نے لیبیا کی سیاست پر چار دہائیوں تک غلبہ حاصل کیا اور انکی شخصیت بڑی سحرانگیزتھی عالمی سطح پر انہیں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا اور ان کے سامراج مخالف موقف، عرب اور پھر افریقی اتحاد کی حمایت کے ساتھ ساتھ تیل کے ذخائر کی دریافت کے بعد ملک میں نمایاں ترقی کیلئے ان کی تعریف کی گئی۔ اس کے برعکس، بہت سے لیبیائی باشندوں نے قذافی کی سماجی اور اقتصادی اصلاحات کی شدید مخالفت کی۔ ان پر انسانی حقوق کی مختلف خلاف ورزیوں کے الزامات تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس کی مذمت ایک آمر کے طور پر کی جس کی آمرانہ انتظامیہ نے منظم طریقے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اور خطے اور بیرون ملک عالمی دہشتگردی کی مالی معاونت کی۔ قذافی کو بچپن سے ہی لیبیا میں یورپی استعماری طاقتوں کی مداخلت کا علم تھا۔ اس کی قوم پر اٹلی کا قبضہ تھااور دوسری جنگ عظیم کے بعد لیبیا کے جداگانہ تشخص بحال کرنے کی بڑی جدو جہد کی۔تاریخ بتاتی ہے کہ کرنل معمرقذافی نے سامراجی طاقتوںکے عالمی مالیاتی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مربوط سسٹم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا وہ اس میں کامیاب ہوجاتے تو سامراجی طاقتوں کی معیشت زمین بوس ہوجاتی اس کیلئے لیبیا کے صدرکرنل معمرقذافی نے روپے کی مالیت کے برابر خالص سونے کے روپے جاری کرنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی جس کو بھانپتے ہوئے جان بوجھ کر لیبیا میں بدعنوانی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہروںکو ہوا دی گئی جس میں شدت آئی تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور حالات کرنل معمرقذافی کے کنٹرول سے باہرہوگئے اور اس کو بنیاد بناکر فوج نے بغاوت کردی اور کرنل معمرقذافی کو معزول کردیا وہ ملک کو بچانے کیلئے روپوش ہوگئے لیکن باغیوںکو مبینہ طورپر سامراجی طاقتوںکی بھرپور حمایت حاصل تھی جو ہر قیمت پرکرنل معمرقذافی سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں افسوس انہیں اپنے ہم وطنوں نے ہی بے انتہاتشدد کرکے ہلاک کردیا بلامبالغہ یہ کہاجاسکتاہے کہ کرنل معمرقذافی بھی تاریک راہوںمیںمارے گئے قوم نے ان کی قدر نہ کی آج لوگ ان کی ترقی و خوشحالی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن اب کیا ہوسکتاہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔بہرحال تاریخ کے اوراق میںکرنل معمرقذافی ہمیشہ زندہ رہیںگے۔