پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد قربانی، استقلال اور بہادری پر رکھی گئی۔ ہماری سرزمین نے وہ دن بھی دیکھے جب مکار دشمن نے جارحیت کی کوشش کی مگر پاک فوج نے اپنی بہادری اور قربانیوں سے دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ پاکستانی عوام کے لیے باعثِ فخر رہی ہے کہ میدانِ جنگ ہو یا بارڈر کا مورچہ، ہمارے جوانوں نے کبھی دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا۔یہی جذبہ عوام کے دلوں میں کرکٹ کے کھیل کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ کرکٹ پاکستان میں محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک قومی جنون ہے۔ عوام اس کھیل کو اپنی عزت اور وقار سے جوڑتے ہیں۔ خاص طور پر بھارت کے خلاف ہونے والے میچ صرف کھیل نہیں بلکہ ایک جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں جیت کو فتحِ پاکستان اور شکست کو دلوں پر وار سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی فوج نے دشمن کو شکست دے کر قوم کو سرخرو کیا تو عوام کا حوصلہ بلند ہوا مگر جب پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت کے خلاف بار بار ناکامی سے دوچار ہوئی تو یہی عوام دل شکستہ اور مایوس ہو گئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی کہانی بھی ایک عجیب اور کڑوی حقیقتوں سے بھری ہوئی ہے۔ چیئرمین کے عہدے پر ایسے افراد بٹھائے گئے جو کرکٹ کو کھیل کے بجائے فائلوں، پالیسیوں اور تعلقات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ محسن نقوی جیسے محنتی اور قابل افراد اپنی جگہ مگر ایک سچ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان بیک وقت متعدد محکمے نہیں سنبھال سکتا۔ کرکٹ ایک نازک کھیل ہے جسے چلانے کے لیے میدان کی نفسیات، کھلاڑیوں کے مسائل اور کھیل کی باریکیوں کو سمجھنے والا چیئرمین چاہیے۔ ایک ایسا چیئرمین جو خود کرکٹ کھیل چکا ہو، جس نے میدان کی مٹی کو محسوس کیا ہو اور جو جانتا ہو کہ ڈریسنگ روم کے دبا میں کھلاڑی کس کیفیت سے گزرتا ہے؟ جب تک چیئرمین کرکٹر نہیں ہوگا، بورڈ ایک فائلوں کا دفتر ہی رہے گا، کھیل کا ادارہ نہیں بن سکے گا. ایک عام کھلاڑی اپنی محنت، ٹیلنٹ اور کارکردگی کے باوجود سلیکشن سے محروم رہتا ہے اور اس کی جگہ کسی سفارشی کھلاڑی کو قومی ٹیم میں موقع دیا جاتا ہے تو اس نوجوان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ پاکستان واقعی کرکٹ میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو سلیکشن کمیٹی کو ہر قسم کے دبا سے آزاد کرنا ہوگا۔ کمیٹی کے اراکین صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر فیصلے کریں تاکہ ٹیم میں وہی کھلاڑی آئیں جو اپنی محنت اور صلاحیت سے منتخب ہونے کے اہل ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے اندر ملازمین کی ایک بڑی فوج تعینات ہے۔ اگر آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت جیسے بڑے بورڈ محدود اور پیشہ ور افراد کے ساتھ دنیا کی بہترین ٹیمیں بنا سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟ یہاں بھی بورڈ کو غیر ضروری اخراجات ختم کرنے ہوں گے اور کم خرچ بالا نشیں کے اصول پر کام کرنا ہوگا۔ عوام یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے وسائل کھلاڑیوں کی تربیت، سہولتوں کی فراہمی اور کرکٹ کی ترقی پر خرچ ہو رہے ہیں۔کرکٹ صرف بورڈ یا کھلاڑیوں کا کھیل نہیں بلکہ یہ عوام کا کھیل ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کرکٹ کے میدان عوام کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ آسٹریلیا میں تماشائی میچ کے دوران بھی وقفے میں میدان اور پچ تک جا سکتے ہیں۔ یہ سہولت عوام کو کھیل سے جوڑتی ہے اور کھیل کو ان کے دلوں کے قریب کر دیتی ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں قذافی اسٹیڈیم جیسا قومی اثاثہ عام دنوں میں عوام کیلئے بند رہتا ہے۔ ایک عام پاکستانی شہری اپنے ملک کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم کو اندر سے دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے مگر اسے اجازت نہیں ملتی۔ یہ رویہ عوام اور کھیل کے درمیان دیوار کھڑا کر دیتا ہے۔ اسٹیڈیمز کو عام دنوں میں عوام اور سیاحوں کیلئے کھولنا چاہیے ۔ یہ نہ صرف عوامی دلچسپی کو بڑھائے گا بلکہ سیاحت کو بھی فروغ دے گا اور ملک کی مثبت تصویر دنیا کے سامنے آئے گی۔پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی نے ایک بار پھر اس نظام کی خامیاں اجاگر کر دی ہیں۔ بڑے ٹورنامنٹس میں ناکامی صرف کھلاڑیوں کی کوتاہی نہیں بلکہ پورے ڈھانچے کی کمزوری ہے۔ جب کھلاڑیوں کو صحیح مواقع نہیں ملتے، کوچنگ کا معیار کمزور ہوتا ہے اور بورڈ میں پالیسی صرف کاغذی بیانات تک محدود رہتی ہے تو نتائج بھی مایوس کن ہی آتے ہیں۔ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ وہ نرسری ہے جہاں سے بڑے کھلاڑی نکلتے ہیں مگر بدقسمتی سے اس نرسری کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اس کے برعکس بھارت نے اپنے ڈومیسٹک سسٹم کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ وہاں سے آنے والا ہر کھلاڑی بین الاقوامی معیار پر پورا اترتا ہے۔ آسٹریلیا نے اپنے گریڈ کرکٹ کے نظام کو اس قدر موثر بنایا کہ وہاں سے آنے والا کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ میں بغیر کسی جھجک کے کھیلتا ہے۔ پاکستان کو بھی یہی ماڈل اپنانا ہوگا ۔اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک نئے وژن کے ساتھ کرکٹ کو دیکھے۔ یہ وژن وہی ہوگا جو میرٹ، شفافیت اور عوامی اعتماد پر مبنی ہوگا۔ چیئرمین کو کرکٹر ہونا چاہیے تاکہ وہ کھیل کے حقیقی تقاضے سمجھ سکے۔ سلیکشن صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ بورڈ کو کم خرچ بالا نشیں کے اصول پر چلایا جائے اور غیر ضروری ملازمین کو فارغ کر کے وسائل کو اصل مقصد یعنی کرکٹ کی ترقی پر خرچ کیا جائے۔ اسٹیڈیمز کو عوام کے لیے کھولا جائے تاکہ وہ کھیل کا حصہ بن سکیں۔ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ وہاں سے نکلنے والے کھلاڑی بین الاقوامی معیار پر پورا اتریں۔ آج دیانتداری، میرٹ اور شفافیت کو اپنانے کا عزم کر لیں تو آنے والے چند سالوں میں دوبارہ دنیا کی بہترین ٹیم بنا سکتے ہیں۔ وہی ٹیم جو ایک زمانے میں دنیا کے لیے خطرہ سمجھی جاتی تھی، وہی ٹیم جو عوام کو خوشی کے ناقابلِ فراموش لمحات دیتی تھی۔ یہ سب دوبارہ ممکن ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنے نظام کو درست کریں۔کرکٹ کو زندہ رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ میرٹ، دیانت اور عوامی اعتماد۔ یہی تین ستون اگر مضبوط ہو گئے تو پاکستان ایک بار پھر دنیا کو حیران کر دے گا۔