سوچ رہا ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں ہم پر راج کرنے والے راجوں مہاراجوں کی عوام دوست پالیسیوں سے یہاں پھر وطن عزیز کی ترقی خوش خالی کی پالیسیاں وضع کرنے والے اعلی دماغ بیورو کیٹس سے کہ جن کی سوچو اور پالیسیوں سے ہم ترقی کے سنہری خواب دیکھتے دیکھتے گزشتہ چند دہائیوں سے ترقی کے نام پر تنزلی کی طرف گامزن ہیں جبکہ ہمارے برعکس ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بلکہ ہم سے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک بھی ہم سے بہت آگے پہنچ کر ہمارے لیے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ملک کو روشن کرنے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے نام پر آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے ترین معاہدے کرنے والے ہمارے مہربان حکمران اور بیورو کیٹس کون تھے۔وہ آپ ہی تھے نں۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ان مہنگے ترین معاہدوں کی تجدید کرنے والے ہمارے عوام دوست حاکم اور ان کی معاونت کرنے والے اعلیٰ دماغ بیورو کیٹس کون تھے کہ جن کے معاہدوں سے آج صارفین بجلی خطہ کی سب سے مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ این ایل جی کی مہنگی خریداری کرنے والے ہمارے حکمران اور بیورو گیٹس کی کیا مجبوریاں تھیں جو آج ہم کئی سالوں سے مہنگے توانائی خریدنے پر مجبور ہیں ۔یہ کوئی ایک دو مثالیں ہی نہیں بلکہ ہمارے گزشتہ چار پانچ دہائیوں پر پھیلی قومی سیاسی معاشی تجارتی تاریخ ایسے بہت سی سیاہ کہانیوں سے بھری پڑی ہے اپ پوچھیں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے تو سادہ سا جواب ہے کہ عام آدمی میں تعلیم کی کمی عام ادمی کا جذباتی شخصیت پرستی کی وجہ سے آنکھیں بند کر کے عوام محبت اور انگل کی ترقی کے نعرے لگانے والے سیاست دانوں سے پیار اپ چار پانچ دائیوں کے ان معاہدہ سازوں کے نام اور ان کی سیاسی جماعتوں کے کوائف معلوم کر سکتے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ اپ صرف ان کی تفصیلات ہی لے سکتے ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی کسی میں سکت ہی نہیں جس کی وجہ سے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے نام پر ایسے بہت سے معاہدے آج بھی ہو رہے ہیں اور ہم عوام اسے بھگت رہے ہیں ورنہ اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں کوئی حکمران یا بیوروکریٹ اول تو ایسا کوئی معدہ ہی نہیں کر سکتا اور نہ ایسی پالیسی بنانے کی جرات کر سکتا ہے کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ ایسی کوئی غلطی کرنے کی صورت میں اس کا کیا حشر ہو سکتا ہے دور نہیں جاتے لاہور سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار کے صفحہ اول پر چلنے والی تین کالمی خبر پڑھ لیتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ہر دل عزیز حکمران اور ہمارے انتہائی فرض شناس ایماندار اعلی افسران کس طرح سے ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دن رات کام کرتے ہیں خبر میں بتایا گیا ہے کہ نگران حکمرانوں نے ملکی ضرورت سے زائد گندم منگوانے کا تاریحی کام کیا اور پہلے مرحلے پر بیس لاکھ ٹن مہنگی اور ناقص گندم منگوانے کی اجازت دی جب اس سے بھی ان کا دل نہ بھرا تو انہوں نے مزید دس لاکھ ٹن گندم منگوانے کی بھی اجازت لے لی اور یوں بیچارے چند مفاد پرستوں کو اپنی عوام دوست پالیسی سے اربوں روپے کا فائدہ پہنچا کر ایک طرف کروڑوں لوگوں اور دوسری طرف لاکھوں چھوٹے بڑے کسانوں کے لیے عذاب پیدا کر دیا اور اب جبکہ ہماری گندم پک کر مارکیٹ میں آ چکی ہے تو مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے کسان احتجاج اور دھرنوں کی طرف جا رہے ہیں موجودہ حکومت صورتحال سے اچھی طرح باخبر ہے اور وزیر خوراک بلال یاسین کہتے ہیں کہ انکوائری کریں گے اس ملک میں انکوائریوں اور کمیشنوں کا اس سے پہلے بھی کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اس انکوائری کا بھی شاید یہی حشر ہوگا البتہ گندم درآمد فیصلہ سے قرضوں میں دبے ملک کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا ٹکا لگ گیا ہے خبر کے مطابق گندم سٹوریج کے انتظامات پہلے ہی نہ کافی ہیں اب اگر کسانوں سے گندم خریدی گئی تو اسے گوداموں میں جگہ نہیں ملے گی پھر یہ گندم خراب ہو کر انسان تو کیا جانوروں کے کام بھی نہیں آسکے گی۔ سوچتا ہوں کہ اگر غلط پالیسی بنانے والوں کو گرفتار کر کے ان کی جائیدادیں نیلام کر کے قومی خزانے کا نقصان پورا کرنے جیسا کوئی فیصلہ موجودہ حکمران کردیں اور اس پر عمل درآمد بھی کروائیں تو شاید قومی ایر لائنز اور والٹن ایئرپورٹ کوڑیوں کے داموں فروخت سے بھی بچ سکے گی اور قومی اثاثوں کی ارزان نرخوں پر فروخت جیسے سانحوں سے بھی قوم بچ سکے گی جب یہاں تک پہنچا ہوں تو اسلام آباد سے بجلی کی قیمتوں میں مزید دو روپے چرانوے پیسے فی یونٹ مہنگی بجلی کی درخواست پرسماعت کرنے پر نیپرا کو بتایا گیا ہے کہ سستے پاور پلانٹس بند کر کے مہنگے پلانٹس چلائے جا رہے ہیں بجلی کی قیمت میں مانگے گئے اضافے سے صار قین پر بائیس ارب اسی کروڑ روپے کا مزید بوجھ پڑے گا بجلی اور گیس پٹرول کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ سے حکمرانوں کی سیاسی ساکھ روز بروز کم ہو رہی ہے جس کی ایک مثال حالیہ جنرل الیکشن میں وہ دیکھ بھی چکے ہیں حکمرانوں کو اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے عوام دوست فیصلوں کی طرف جانا ہوگا اب سنا ہے کہ مہنگی بجلی سے ستائے لوگ سولر پینل لگانے پر مجبور ہیں بجائے اس کے کہ حکومت سولرصارفین کےلئے زیادہ سے زیادہ سہولتیں دے سولر لگانے والوں پر بھی ٹیکس کی افواہیں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ہم کس طرف جا رہے ہیں کیوں جا رہے ہیں مقبولیت میں اضافے کےلئے خود حکمرانوں کو بھی تو کچھ سوچنا ہوگا۔