اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسانوں کی رہنمائی کیلئے کسان بورڈ پاکستان بھی جماعت اسلامی کی دوسری سسٹر تنظیموں کی طرح ایک ذیلی تنظیم قائم ہے۔ اب اس کی تنظیم نو کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ نے اس کا نیا نام ”جے آئی کسان “یعنی جماعت اسلامی کسان رکھ دیا ہے۔جے آئی کسان کے موجودہ مرکزی صدر شوکت علی چدھڑ ہیں۔”جے آئی کسان“ کی تنظیم پوری ملک میں تحصیل لیول تک ہے، جو کسانوںکی رہنمائی کر رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستا ن کی تقریباً ستر فی صد آبادی دیہاتوںپر مشتمل ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہ آبادی پاکستانی عوام کیلئے بنیادی ضرورت غلہ اُگاتی ہے مگر ہمارے دوست نما دشمن امریکا جس کا پاکستان میں ضرورت سے زیادہ داخل ہے، نے کو پاکستان کو خوراک میں خود کفیل ہونے کی طرف نہیں جانے دیتا۔اُسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اگر پاکستان میں زرعی اور صنعتی انقلاب آگیا ،تو پاکستان جو کہ اسلامی دنیا کا ایک میزائیل اور ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے فراطی لیڈر ہے، اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان معاشی ترقی کرتا ہے تو وہ ہمارے خلاف ایک اسلامی بلاک بنانے میں کامیاب ہو جائےگا۔اسی لیے امریکہ خود اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے سود در سود کے چکر میںپھنسا کر اور آئی ایم ایف جسے سودی اداروں کے ذریعے پالیسیوں بنا کر پاکستان کو کمزور رکھنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ اس امریکی مداخلت کے خلاف پاکستان کے دوسرے بعی گواہوں کی طرح جماعت اسلامی بھی عوام کو امریکی پالیسیوں سے بچنے کیلئے عوام کو تیار کرتی رہتی ہے۔پاکستان کے سارے حکمران امریکی کے پٹھو بنے رہتے ہیں ۔دینی جماعتوں اور خاص کرجماعت اسلامی کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان کے نوے فی صد عوام امریکا کے خلاف ہی رائے دیتے رہتے ہیں۔اس کا ثبوت عوامی سروے ہیں، جو گاہے بگاہے عوام کے سامنے اپنے نتائج پیش کرتے رہتے ہیں۔جے آئی کسان تنظیم پور ملک میں زرعی انقلاب کیلئے کسانوں کو منظم کرتی ہے۔ پورے ملک میں کسانوں کے جائز حقوق کے لیے آواز اُٹھاتی رہی ہے ۔ جے آئی کسان کے مرکزی صدر شوکت علی چدھڑ نے ٹھوکر نیاز بیگ میں کسانوں کے پر امن احتجاج میں حکومت سے کہا کہ حکمرانوں کی کسان کش پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کی جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی ہدایات پر بجلی گیس کے آئے روز نرخوں میںاضافہ کی وجہ سے کسان پریشان ہیں۔ اس کا برائے راست اثر زراعت پر پڑتا ہے۔ حکومت گندم کی قیمت دو ہزار فی من مقرر کرے۔ کھاد، بیج، ڈیزل اورزرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی لائے۔ لوٹ مار کا نظام ختم کیا جائے۔جے آئی کسان کے صدر نے کہا کہ ہم نے کسانوں کے نمایندوں اور زرعی ماہرین کے ساتھ مشاورت سے ایک زرعی پالیسی مرتب کی ہے۔ جس سے کسان خوشحال ہو نگے اور ملک ترقی کرے گا۔ اس پالیسی کوملک میں نافذ کیا جائے۔نہروں میں پانی کم ہے ۔ کسان ٹیوب ویلوں سے اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ لہٰذا ٹیوپ ویلوں کے فلیٹ ریٹ پانچ روپے پینتیس پیسے فی یونٹ بحال کیا جائے۔ کسانوں پر اُور بلنگ کی مد میں بقایاجات ختم کیے جائیں۔ انہوں کہا کہ اگر ہمارے جائز مطالبات منظور نہ کیے گئے تو ہم اپنے ما ل مویشیوں کو ملک کی شاہراہوں پرباندھ کر ملک کی تمام شاہراہوں کو بند کر دیں گے۔ منڈی بہاالدین میں کسان کنونشن میں امیر جماعت اسلامی نے کسانوں سے خطاب رتے ہوئے کہا کہ کاشکار اپنے مسائل حل کرانے کیلئے جماعت اسلامی کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں۔ کسان اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آباد پر امن پڑاﺅ ڈالیں۔ ہم ان کے ساتھ گھڑے ہو کر ان کے مطالبات منظور کرائینگے۔ ہم کہتے ہیں کہ ملک کی زمین چھوٹے کسانوں اور زرعی گریجوئیٹز اور نوجوانوں میں تقسیم کی جائے۔بلاسود قرضے دیے جائیں۔جعلی کھاد اور بیج فروخت کرنے والوں کو گرفتار کروا سزائیں دی جائیں۔ملک پر مسلط جعلی حکمرانوں کسانوں کو پچھتر سالوں سے لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسان خوشحال ہو گا تو پاکستان خوشحال ہو گا۔ملک میں79 ملین ایکڑ زمین میں سے صرف23 ملین ایکڑ زمین آباد ہے۔ باقی زمین کو بھی آباد ہونا چاہےے۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر یہ غیر آباد زمینیں بے روز گار نوجوانوں میں تقسیم کرے گی۔آباد کاری کے لیے ان کو سستے بیج، ادویات اور ٹریکٹر مہیا کریں گے۔ پاکستان کی کسان بھارت کے کسانوں سے زیادہ محنتی ہیں۔ انہیں موقعہ فراہم ہو تو ملک کے لیے زیادہ اناج پیدا کر سکتے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیںکو خوراک در آمد کرنی پڑتی ہے۔ زرعی مشنری پر ٹیکس عائد ہیں۔ کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتیں کسانوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ، سیلاب اور قحط سالی کی وجہ سے متاثر غریب عوام کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ۔ گزشتہ سیلاب میں ساڑھے تین کروڑ متاثر ہوئے۔ دنیا نے امداد دی، مگر عوام کو کچھ بھی نہیں ملا۔ ملک پر اسی ہزار ارب قرض بتایا جاتا ہے۔ یہ قرض کہاں خرچ ہوا۔ حکمرانوں نے اس کا حصہ ملک سے باہر اپنے اکاﺅنٹ میں منتقل کر دیا۔ اپنی فیکٹریوں اور شوگر ملوں میں اضافہ کیا۔اگر ملک کی ستر فی صد کسان آبادی کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں تو ملک ترقی کر سکتا ہے۔ کچھ سال پہلے جیانوالہ میں کسان بورڈ نے کنونشن منعقد کیا۔ اس کنونشن میںکہا گیا ملک کے آبادی کا ستر فی صد کسان ہیں۔ اس لیے پاکستان میں کسانوں کا راج ہونا چاہےے۔ کسان ملک کے یے غلہ اُگاتے ہیں ہیں مگر وہ غربت میں مبتلا کر دیے گئے ہیں۔ یہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ جب کسان اپنے جائز مطالبات کے لیے پر امن احتجاج کرتے ہیں توان پر لاٹھیا برسائی جاتی ہیں۔ ان کو قید کر دیا جاتا ہے ان پر مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ کسانوں نے کہا کہ ہم پر ظلم بند نہ کیا گیا تو ہم اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں میں بیٹھ کر اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ جب تک ہمارے جائز مطالبا ت نہ ہوئے اُس وقت تک ہم اپنے گھروں کو نہیں جائیں گے۔بیس جون سن دو ہزار انیس عیسوی کو لاہور منصورہ میں منعقد قومی بجٹ سیمینار پر تقریر کرتے ہوئے، اس وقت کے کسان بورڈ کے صدر نثار احمد ایڈوکیٹ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں کسانوں کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ امریکہ میں بھی کسانوںکو سبسڈی ملتی ہے۔ اگر گندم کی پیداروا زیادہ ہو جائے تو امریکہ کسانوں سے خرید کر سمندے میں ڈال دیتا ہے مگر کسانوں کا نقصان نہیں ہونے دیتا۔