کالم

کس کس کا رونا رویا جائے

taiwar hussain

سیاست اور جمہوریت نے ملک کے ماحول کو ایسا زہر یلا بنادیا کہ ذاتی دشمنیاں کھل کر سامنے آگئیں ، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ، ہندوستان نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کو کامیاب بنادیا ،ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ بھی سیاستدان اور سیاسی جماعت کی طرف سے لگا، بدقسمتی سے وقت نے اب ایسے لوگوں کو ملک کے رہنما بنادیا جو بدنیت ، بے ایمان اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ہیں ، قوم کا پیسہ اتنی بےدردی سے اپنی جیبوں میں ڈالا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ، فوجی حکومتوں کے بعد باگ ڈور ایسے بزنس مینوں اور وڈیروں کے ہاتھ لگ گئی جو پیدائشی حریص تنگ نظر اور تنگ دل بے کردار تھے ، تعجب تو یہ ہے کہ سرکاری ملازمت میں اگر کسی ملازم کیخلاف کرپشن کے چار جز ثابت ہوجائیں تو اسے ملازمت سے برخاست کردیا جاتا ہے لیکن سیاسی لیڈر کرپشن کے چارجز سے پاک صاف ہوکر پھر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں، قوانین بنانےوالے بھی خود ان کو توڑنے والے بھی خود، قائد اعظم اور ان کے رفقاءتو سرکاری خزانے سے ایک پائی بھی نہیں لیتے تھے وہ تو قیام پاکستان کیلئے اور پھر اس کے وجود میں آنے کے بعد اسے مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگے رہے لیکن ان کے بعد آنےوالے حریفوں نے ملک کی دولت کو اباجی کا مال خوب سے خوب تر حربوں سے لوٹا، یہ حقیقت ہے کہ مختلف سیاسی ادوار میں ملک کہنیوں کے بل رینگ رینگ کر ترقی کرتا رہا اور وہ نام نہاد ترقی پائیدار ہونے کی بجائے سردیوں کی دھوپ کی طرح ثابت ہوتی رہی ، غضب خدا کا مراعات بھی انہوں نے اپنے لئے مختلف اوقات میں چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح منظور کرائیں اور لاکھوں روپے لیکر جیبوں میں ڈال لئے ، سوکنوں کی طرح ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے گھٹیا زبان اور گھٹیا ترین اعمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سیاستدانوں نے بدنامیاں تو کمائیں لیکن قوم اور ملک کو گھر کے ملازمین کی طرح سمجھا ، ہر دور میں قومی خزانہ خالی ہوتاہے اور قرض کی درخواست کسی نہ کسی مالیاتی ادارے کے حضور پیش کی ہوئی ہوتی ہے ، قرض ملک ، قوم کے نام پر خود لیتے ہیں اور خود ہی اپنی آسانیوں کیلئے خرچ کرتے ہیں ، قوم تو مقروض رہنے کے مرض سے صحتیاب ہی نہیں ہوپاتی ، نئے نئے انداز اور طریقوں سے سیاستدانوں کی فیملیز بھی ماماجی کا مال سمجھ کر قومی دولت کو لوٹتی ہیں ، یہ ایسی جونکیں ہیں جنکا پیٹ قوم کا خون چوس چوس کر بھرتا ہی نہیں ، ملک کی یہ اعلیٰ ترین مخلوق ہیں عوام جن کی ووٹوں اور سپورٹ سے یہ عہدوں پر تخت نشین ہوتے ہیں وہ ان کیلئے صرف تالیاں بجانے اور ڈھول کی تھاپ پر ان کی کامیابیوں پر بھنگڑا ڈالنے والے اور سیاسی جلسوں میں شرکت اور زندہ آباد کے نعرے لگانےوالوں سے زیادہ نہیں ، اگر فائرنگ کا تبالہ ہو جائے تو بھی مرتا کسی غریب کا بچہ ہی ہے ، ان کی اولادیں ملک سے باہر رہتی ہیں اور اگر ملک میں آ بھی جائیں تو تخت اقتدار کے والے بن کر سامنے آتے ہیں ، ہمارے ملک کی سیاست چند مال دار گھرانوں کے تفریحی ماحول کے گرد گھوم رہی ہے ، باریاں لگی ہوئی ہیں ایک بار تم ار ایک بار ہم نہ تو عوام کی مشکلات کا پتہ اور نہ ہی ملک کی ترقی کا عزم بس اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے تمام تر طاقت خرچ ہوتی ہے ، علامہ اقبال ؒ نے بالکل صحیح کہا تھا کہ ”جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے “ ووٹوں کی گنتی سے ان پڑھ ملزم مجرم اٹھائی گیر رسہ گیر ، سمگلر جرائم سے لت پت سبھی پر وقار شخصیتیں بن کر باوقار پوزیشنوں پر براجمان ہو جاتے ہیں ، ملک کو سیاست کی اکیڈمی سمجھ کر ان بلونگڑوں کو اقتدار حاصل کرنے کے طور پر طریقے اور عوام کو دھوکہ اور فریب دینے کے انداز سکھائے جاتے ہیں جو دادکوں اورنانکوں کے نام ملاکر اپنی شناخت کروائیں بھلا وہ کیا ملک ، قوم کے مسیحا بنیں گے ، عوام مسلسل دھوکے میں آرہے ہیں جو ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ڈراوا دیں ان کا یہ ریاست کچھ نہیں بگاڑ سکی ، جو اداروں کی تذلیل کریں ان پر پاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔ پاکستانی قوم اب ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے ، یہ ن لیگ کے متوالے ہیں ، یہ پی پی کے جیالے ہیں ، یہ پی ٹی آئی کے جانثار ہیں ، کچھ اداروں کو برا کہنے اور کچھ ان کے تقدس کیلئے ہیں ، کچھ مذہبی منافرتوں کو پھیلا رہے ہیں ، ہم کیا کررہے ہیں ، کوئی بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ، اپنی اپنی دکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیں ، عدالتیں بے آبرو کرنے کی مہمات الگ ہیں ، کس کس کا رونا رویا جائے ، اگر سیاسی لیڈر کسی عدالت میں پیش ہونے کو آتا ہے تو بھنگڑا ڈالنے والوں کا جلوس ساتھ ہوتا ہے ، ذرا سا اس جتھے کو اشتعال دلا یا جائے تو خون خرابہ ہوسکتا ہے ،یہ لیڈر یلغار کرنے کیوں آتے ہیں ، اس وقت سبھی لیڈر داغدار ہیں ، مالی طور پر یا اخلاقی طور پر ان کے ماضی اور حال شرمناکیوں سے بھرے پڑے ہیں ، موجودہ وزیر اعظم سے توقع تھی کہ وہ لیڈربنیں رہیں گے لیکن وہ تو سیاستدان بن گئے ، مسائل کے انبار میں وہ کہیں نظر ہی نہیں آرہے ، معیشت معاش سب برباد، پیداہونے بچوں تک مقروض ،وہ قومیں ہمارے سامنے ہیں، جو معیشت کو مضبوط کرکے دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہی ہیں ۔ عوام تو مررہے ہیں اب تم اپنے لاڈلوں کو میدان میں قربانی کیلئے پیش کرو ، ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کی کوششوں کو مزید تیز کرو ، کچھ کیا ہوا نظر آئے میعاد پوری کرنا حکومت کا نصب العین نہیں ہونا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے