قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔23 مارچ1940کو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس منٹو پارک (اقبال پارک) لاہور میں منعقدہواجس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی ۔ اس اجلاس میں ریاست کشمیر کا ایک نمائندہ وفد بھی شامل ہواجس کی قیادت مولانا غلام حیدر جنڈالوی کر رہے تھے ان کے ساتھ سردار فتح محمد کریلوی،سید حسین شاہ گردیزی، سردار گل احمد خان سدھن گلی والے اور دیگر افراد نے شرکت کی ہندوستان کی تمام ریاستوں کے وفود کو تقریر کیلئے پانچ پانچ منٹ دئے گئے اسی طرح ریاست کشمیر کے وفد کو بھی پانچ منٹ دیئے گئے وفد کے سربراہ مولانا غلام حیدر جنڈالوی جب اپنے پانچ منٹ پورے کر چکے توقائداعظم محمد علی جناحؒ نے سٹیج سیکرٹری کو کہا کہ مولانا کو میری تقریر میں سے مزید وقت دیا جائے کیونکہ یہ ریاست جموں و کشمیر کے 88فیصد مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ ان کی بات کو توجہ سے سنا جانا ضروری ہے۔ قائداعظمؒ کے ذہن میں کشمیر کی اہمیت اور اس کا نقشہ موجود تھا۔ پاکستان کا ”ک“ کشمیر سے لیا گیا تھا اسی لئے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی باغیرت قوم اپنی شہ رگ کو دشمن کے حوالے نہیں کر سکتی۔کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے قائداعظم محمدعلی جناح کی زبان سے نکلایہ جملہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کشمیر پاکستان کےلئے محض ایک سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ اس کی نظریاتی، جغرافیائی اور جذباتی وابستگی کا مظہر ہے۔کشمیر صرف زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن ہے،پاکستانیوں کاکشمیری عوام کے ساتھ نظریے، عقیدت،محبت وخلوص اور ایمان کا مقدس رشتہ ہے جو قیامِ پاکستان سے بھی صدیوں پہلے سے قائم ہے۔پاکستان کے ہر شہری کے دل میں کشمیری عوام کے لیے محبت، اخوت اور ایثار کا جذبہ موجزن ہے۔ کشمیر کی آزادی کا خواب ہر پاکستانی کی آنکھ میں بسا ہوا ہے، اور جب تک یہ خواب حقیقت نہیں بن جاتا،پاکستانی عوام اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی جدوجہد آزادی کی سیاسی،اخلاقی ،سفارتی ، ریاستی اورانسانی حمایت جاری رکھیں گے ۔ تاریخی اور جغرافیائی اعتبارسے کشمیر برصغیر کی تقسیم کے وقت (95فیصد) مسلم اکثریتی ریاست تھی جو قدرتی اوراکثریتی طور پر اہل کشمیرکاحق اورپاکستان کا حصہ بنناچاہیے تھا ۔ دریائے جہلم، چناب اور سندھ جیسے اہم دریا کشمیر سے نکلتے ہیں،جو پاکستان کی زراعت اور معیشت کےلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ کشمیر کی ثقافت، زبان، روایات اور مذہبی وابستگی پاکستانی معاشرے سے گہری مماثلت رکھتی ہیں ۔ پاکستان ( لا الہ الا اللہ )کی بنیاد پر وجود میں آیا، کشمیری عوام بھی اسی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔کشمیری عوام کا نعرہ ”پاکستان سے رشتہ کیا؟ لا الہ الا اللہ” اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔بھارتی جبر کے باوجود، ہر 14 اگست کو کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرانا اور یومِ آزادی منانا اس نظریاتی وابستگی کا ثبوت ہے ۔:یومِ یکجہتی کشمیر :پاکستانی عوام کے جذبات اور کشمیری بھائیوں سے محبت کا مظہر ہے۔ہر سال 5 فروری کو پاکستانی عوام کشمیری بھائیوں کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دنیاسے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کے ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ بھارت نے 1947 سے اس خطے پرناجائز قبضہ جما رکھا ہے اور کشمیری عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت نہ صرف کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دینے سے انکاری ہے بلکہ وہاں مسلسل ظلم و جبر کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل عام کا ارتکاب کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ہزاروں کشمیری نوجوان اور عام شہری بےگناہ مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر کو عسکریت پسند قرار دے کر قتل کیا جاتا ہے ۔ کشمیرمیڈیاسروس کی ایک رپورٹ کے مطابق 1947 ءسے 2025 ءتک بھارت نے کشمیر میں ڈھائی لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔کشمیر میں ہزاروں افراد کئی سالوں سے لاپتہ ہیں، جنہیں بھارتی افواج نے اغوا کیا یا حراست میں لے کر غائب کر دیا۔ان لاپتہ افراد کے خاندان آج بھی انصاف کے منتظر ہیںپر بھارتی حکومت مسلسل ظلم وجبرکابازارگرم کیے ہوئے ہے۔ بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز خواتین کو ہراساں کرنے، جنسی زیادتی اور ظلم و ستم کیلئے بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔کنن پوشپورہ اجتماعی زیادتی کیس اس کی ایک مثال ہے، جہاں درجنوں کشمیری خواتین کو بھارتی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے آزادی اظہار پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔اخبارات، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پرسخت سنسرشپ نافذ ہے۔کشمیری صحافیوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کیا جاتا ہے یا انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔بھارتی افواج پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں نوجوان ،بچے اوربوڑھے بینائی سے محروم چکے ہیں۔بھارتی فورسزکی جانب سے یہ غیر انسانی ہتھیار عام طور پر پُرامن مظاہرین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت نے کئی مہینوں تک انٹرنیٹ اور موبائل سروسز معطل رکھیں تاکہ مظالم کی خبریں دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔دنیاکی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کادعویداربھارت مسلسل عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہاہے ۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا چاہیے پربھارت ان قراردادوں اورانسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کو نظر انداز کر رہا ہے ۔ بھارتی افواج کا کشمیری عوام پر ظلم و ستم انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی کھلی خلاف ورزی ہے جو ہر فرد کو آزادی، مساوات، اور انصاف کی ضمانت دیتا ہے ۔ بھارت کی افواج مقبوضہ کشمیر میں جنیوا کنونشنز کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہیں، جو جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کے تحفظ سے متعلق قوانین فراہم کرتا ہے ۔ عالمی تنظیمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر بار بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان رپورٹس میں جبری گمشدگیوں، پیلٹ گن کے استعمال اور غیر قانونی گرفتاریوں کی تفصیلات بھی جاری ہوچکی ہیں۔اگرچہ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر رپورٹس جاری کرتے ہیںپرآج تک عملی اقدامات سامنے نہیں آئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم عالمی برادری کےلئے ایک بڑا امتحان ہیں۔عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔پاکستانی عوام کاعالمی اداروں سے ہمیشہ مطالبہ رہاہے کہ کشمیری عوام کو بنیادی انسانی حقوق جن میں آزادی سرفہرست ہے اورانصاف دلانے کےلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔وقت بہت تیزی سے بدل چکاہے،مقبوضہ جموں وکشمیرمیں کھلم کھلا بھارتی ظلم وجبر اورقتل وغارت پردنیا نے اپنی خاموشی برقرار رکھی تو انسانی حقوق کی پاسداری کا عالمی تصور مزید کمزور ہو جائے گا!