کالم

کشمیریوں پر کے حق رائے پر پابندیاں

ہیومن رائٹس واچ کی ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ بھارتی فورسز کے اہلکار جابرانہ پالیسیوں کا نفاذ جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں بلا جواز نظربندیاں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں ۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں تشدد پر قابو پایا گیا ہے لیکن علاقے میں بنیادی آزادیوں پر پابندیوں کا سلسلہ ا ب بھی جاری ہے اور کشمیری اظہار رائے کی آزادی کے حق اور حق اجتماع سے محروم ہیں، لوگ بات کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ لگا رہتا ہے کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ” ہیومن رائٹس واچ “نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے5اگست 2019کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیے جانے کے پانچ برس بعد بھی علاقے میں اظہار رائے کی آزادی اور حق اجتماع پر شدید پابندیاں برقرا ر ہیں۔حکام نے سول سوسائٹی کے سرکردہ کارکنوں کا کریک ڈاون بھی شروع کر رکھا ہے۔ 10 جولائی کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایڈووکیٹ نذیر احمد رونگا کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا جبکہ جون میں ایسوسی ایشن کے سابق صدر ایڈو وکیٹ میاں عبدالقیوم کو بھی قتل کے ایک جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بی جے پی انتظامیہ نے بار ایسوسی ایشن کے انتخابات پر پابندی عائد کر دی ہے۔انسانی حقوق کے کشمیری محافظ خرم پرویز نومبر 2021 سے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت جیل میں بند ہیں۔ اگست 2019 سے کشمیر میں کم از کم 35 صحافیوں کو رپورٹنگ کی وجہ سے پولیس پوچھ گچھ، چھاپوں، دھمکیوں، جسمانی حملوں، نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیوں یا من گھڑت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مودی حکومت نے خبروں کو سینسر کرنے کیلئے جون 2020 میں ایک نئی میڈیا پالیسی نافذ کی۔ کشمیری صحافی آصف سلطان کو مارچ میں رہائی کے فوراً بعد دوبارہ گرفتار کیا گیا، پولیس نے جماعت اسلامی کے رہنما ایڈووکیٹ زاہد علی کو بھی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کیا۔ بھارتی فورسز کو کالے قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت بے لگام اختیارات حاصل ہیں اور فورسز اہلکار بغیر کسی جواب دہی کے خوف کے ماورائے عدالت قتل ، بلا جواز جواز گرفتاریاں اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ بھارتی حکام کو جموں وکشمیر کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اورجن لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے انہیں انصاف فراہم کیا جانا چاہیے اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ کشمیریوں کی اراضی اور املاک پرقبضے کو 2019کے بعد مودی حکومت کی طرف سے نافذ کئے گئے نئے قوانین کے تحت تحفظ فراہم کیاگیا ہے۔ان اقدامات کے تحت قابض انتظامیہ نے ایک ماہ کے عرصے میں کشمیریوں کی دس لاکھ کنال سے زائد راضی پر قبضہ کیا۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کے وسیع تر نسلی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنا ہے ۔رپورٹ میں مودی حکومت کی طر ف سے سرینگر میں "خصوصی سرمایہ کاری کوریڈور” کے قیام کی تجویز پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ شبہ ظاہر کیاگیا ہے کہ کوریڈو ر کے ذریعے پیدا ہونیوالی دس لاکھ نئی ملازمتوں پر غیر کشمیری ہندوﺅںکو بھرتی کیاجاسکتا ہے۔ مستقل رہائش کے قوانین، اراضی کے مالکانہ قوانین، اور جموںوکشمیرتنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت لیز کے معاہدوں میں ترامیم کے علاوہ نئے ریزرویشن قوانین پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس نے بھارتی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ سمیت دیگر کالے قوانین کی منسوخی اورکشمیریوں کے جمہوری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔اس رپورٹ کی ریسرچ رواں سال جنوری اور اگست کے درمیان کی گئی جس میں کشمیر کے ماہرین تعلیم، وکلا اور صحافیوں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ میڈیا رپورٹس اور تاریخی دستاویزات کے حوالے بھی شامل کئے گئے ہیں۔مودی حکومت نے کشمیریوں کی زمینوں پر کسی نہ کسی بہانے قبضہ جمانے اور ان پر بھارتی ہندوو¿ں کو بسانے کی اپنی مذموم مہم اگست 2019ءمیں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد تیز کر دی ہے جس کا واحد مقصد علاقے کے مسلم اکثریتی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے ۔ مودی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ضلع بڈگام کے علاقے ا چھگام میں ”مہارا شٹر ہاو¿س“ کی تعمیر کیلئے 20 کنال اراضی مہاراشٹر حکومت کو فراہم کی ہے۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ سے ’مہاراشٹرا بھون‘ کی تعمیر کےلئے علاقے میں اراضی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔اس اراضی پر 77 کروڑ کی لاگت سے مہاراشٹر بھون تعمیر کیا جائیگا ۔ بھارتی حکومت پہلے ہی یہ اعتراف کر چکی ہے کہ مقبوضہ وادی کے تینوں خطوں، جموں، کشمیر اور لداخ میں فوج نے دس لاکھ چون ہزار سات سو اکیس کنال زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے