کالم

کشمیریوں کی جہدوجہد

19جولائی1947کا تاریخی دن نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان سے فطری اور نظریاتی رشتے کا غماز ہے بلکہ یہ دن آج بھی اہل کشمیر کے پختہ عزم، استقامت اور پاکستان سے والہانہ محبت کی علامت کے طور پر زندہ ہے۔ اسی روز آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ایک غیرمعمولی اجلاس میں ، سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر، ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ اس اجلاس کی صدارت چوہدری حمید اللہ خان نے کی، جبکہ خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحیم وانی نے قرارداد پیش کی، جسے59کشمیری رہنمائوں نے بلامخالفت منظور کیا۔یہ قرارداد تقسیم ہند کے اس پس منظر میں منظور کی گئی جب برطانوی حکومت کی جانب سے طے شدہ منصوبے کے مطابق برصغیر کی 562ریاستوں کو بھارت یا پاکستان سے الحاق کا اختیار دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، جس کی جغرافیائی، مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی وابستگیاں واضح طور پر پاکستان سے تھیں۔ چنانچہ کشمیریوں نے اپنی آزادی کا حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ اب دھائیوں پر محیط بھارتی ظلم و ستم نے اس حقیقت کی تصدیق کر دی ہے کہ کشمیری عوام کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ درست تھا اور یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام آج بھی اقوام متحدہ کے تحت ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ وہ مذہبی اور جغرافیائی وابستگی کے تحت پاکستان سے الحاق کر سکیں۔ بدقسمتی سے بھارت نے کشمیریوں کی اس متفقہ رائے اور تاریخی حقیقت کو پامال کرتے ہوئے 27اکتوبر 1947کو سرینگر پر فوجی یلغار کی اور ریاست پر جبرا قبضہ جما لیا۔ یوں وہ خطہ، جو قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ بننا چاہتا تھا، آج بھی بھارت کے غاصبانہ تسلط کیخلاف مزاحمت کر رہا ہے۔کشمیری عوام گزشتہ 77 برسوں سے مسلسل بھارتی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ لاکھوں جانیں تحریک آزادی کی راہ میں قربان ہو چکی ہیں۔ ہزاروں لاپتہ افراد، ماورائے عدالت قتل، اجتماعی قبریں، خواتین کی بے حرمتی یہ سب بھارت کے اس دعوے کی قلعی کھولتے ہیں جو اسے دنیا کی "سب سے بڑی جمہوریت”کہلوانے پر مجبور کرتا ہے۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنا، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر اب دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھانی بن چکا ہے، جہاں دس لاکھ سے زائد فوجی تعینات ہیں اور پورا خطہ ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بھارت کے ساتھ 1948، 1965 اور 1971کی جنگوں کے باوجود پاکستان اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ سفارتی محاذ ہو یا عالمی پلیٹ فارم، پاکستان نے کشمیریوں کا مقدمہ پوری جرات سے پیش کیا ہے۔شہید قائد سید علی گیلانی کا نعرہ "ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” نہ صرف ایک نعرہ ہے بلکہ یہ کشمیریوں کا نظریہ اور سیاسی مقف بھی بن چکا ہے اور آج بھی وادی میں پوری قوت سے گونج رہا ہے گیلانی صاحب کی جدوجہد، استقامت اور پاکستان سے محبت کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔19جولائی کا دن صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ کشمیری عوام کے اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ وہ بھارتی قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کرینگے۔اس دن دنیا بھر میں موجود کشمیری یومِ الحاقِ پاکستان مناتے ہیں، تاکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جا سکے اور کشمیریوں کو ان کا وہ حق یاد دلایا جا سکے جو اقوام متحدہ خود انہیں دے چکی ہے۔یہ امر باعث افسوس ہے کہ اقوام متحدہ گزشتہ 78برسوں میں اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرا سکا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور عالمی میڈیا نے بارہا کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رپورٹ کیا، مگر عالمی ضمیر تاحال خاموش ہے ۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں اس عزم کی تجدید کرنی ہے کہ کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ دن ضرور طلوع ہو گا جب کشمیر بھارت کے تسلط سے آزاد ہو گا اور پاکستان کا حصہ بنے گا، جیسا کہ 1947 کی قرارداد میں واضح کیا گیا تھا۔یومِ الحاقِ پاکستان دراصل کشمیریوں کے دل کی آواز، ان کے نظریاتی سفر کا سنگ میل اور پاکستان سے ان کی لازوال محبت کا مظہر ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم کی رات جتنی بھی طویل ہو، آخرکار سحر ضرور آتی ہے۔ کشمیریوں کا سفرِ آزادی جاری ہے ۔ ان شا اللہ، وہ دن دور نہیں جب کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا اور شہیدوں کا لہو رنگ لائیگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے