بھارتی شہر چندی گڑھ کے ایک تعلیمی ادارے سی ٹی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ میں ہندو انتہا پسند طلبا ءنے مقبوصہ جموںوکشمیر کے طلبا ءکو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ کشمیری طلباءپر حملے کے بعد کیمپس میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جبکہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی پولیس نے صحافی آصف سلطان کو پانچ برس کی غیر قانونی حراست سے رہائی کے محض دو روز بعد دوبارہ گرفتار کر لیا۔ کشمیری قیادت نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلباءقوم کا مستقبل ہیں اور ان کےخلاف کسی قسم کی مہم جوئی برداشت نہیں کی جائے گی ۔ ضمنی انتخابی ڈرامے میں کشمیری عوام کے ردعمل نے بھارتی حکمرانوں اور کٹھ پتلی انتظامیہ پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباءپر تشدد اور مارپیٹ اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ کشمیری طلباءبھارت میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔کشمیری طلبہ نے اپنے اور دیگر ساتھی طلباءکے ساتھ بھارتی طلباءکی جانب سے زیادتی اور تشدد کی تصدیق کی گئی ہے۔ کشمیر طلباءنے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی خفیہ تصاویر لے کر انہیں بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کشمیریوں کو بھارتی طلباءکے گروپ نے کالج چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ بھارتی پولیس نے تفتیش کے نام پر کشمیری طلباءکی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ بھارت میں کشمیری طلباءکو آر ایس ایس کے غنڈوں کی جانب سے بغیر کسی اخلاقی یا قانونی جواز کے ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک طرف کشمیریوں کی نسل کو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف دنیا کو دکھانے کیلئے اسٹوڈنٹس سکالرشپ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ ہندو انتہا پسند طلبہ تنظیموں نے بھارت کی مختلف ریاستوں میں گزشتہ سکالرشپ پر بھجوائے گئے کشمیری طلبہ کیخلاف پرتشدد مظاہرے کیے اور حملے کر کے جان سے مارنے کی کوششیں کیں۔کشمیری طلباءنے واضح کیا ہے کہ بھارت چند ٹکوں کے عوض ہماری حب الوطنی نہیں خرید سکتا، ہم پچھلے 7 عشروں میں ڈھائے گئے مظالم کیسے بھول سکتے ہیں؟ بھارتی طلباءکا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر چونکہ بھارت کا حصہ نہیں اس لیے ہماری سیٹوں اور اسکالر شپس پر بھی ان کا کوئی حق نہیں۔ مقبوضہ وادی کی کشمیری قیادت، کشمیری طلباءاور بھارتی محکمہ تعلیم سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اسکیم (جس میں طالب علموں کا ایک سال دوسرے خطے میں گزارنا شامل ہے) مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ نئی اسکالرشپ اسکیم بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے عالمی برادری کو دھوکا دینے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔بھارت سرکارکشمیری طلبہ پر تشدد جیسے ہتھکنڈے اختیار کر کے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مظلوم کشمیریوں سے لاالہ الااللہ کا رشتہ ہے۔ ہم نے اپنے دین اور ملت کے ان رشتوں کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ قرآن پاک واضح طور پر مسلمانوںکی رہنمائی کرتا ہے کہ یہودو نصاریٰ اور مشرک ہندو کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ ہمیں برصغیر میں کس طرح رہنا ہے؟ ہندوو¿ں کی سازشوں کا مقابلہ و توڑ کیسے ممکن ہے؟ اور ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کو کس طرح ختم کرنا ہے؟ اس کےلئے ہمیں کتاب و سنت کی تعلیمات سے رہنمائی لے کر ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں پر تشدد، اغوا، قاتلانہ حملے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس ظلم و تشدد کی وجہ سے صحافیوں کےلئے مقبوضہ علاقے میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی انتہائی مشکل ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں کئی صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران زخمی ہو چکے ہیں اور بعض کو فوجیوں نے جھوٹے الزامات کے تحت نظر بند کر دیا ۔ فری لانس فرانسیسی صحافی کومیتی پال ایڈورڈ کو بھارتی پولیس نے گزشتہ سال انسانی حقوق کے بین الاقوامی دن کے موقع پر سرینگر میں پیلٹ گن کے زخمیوں کی ویڈیو بناتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا۔ ایڈورڈ نے بعد ازاں ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ کشمیریوں کو بھارتی فورسز کے ہاتھوںبدترین فوجی جارحیت اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سامنا ہے اور بھارت نہیں چاہتا ہے کہ یہ تمام مظالم عالمی برادری کے سامنے آئیں۔