مودی کی فسطائی بھارتی حکومت منظم طورپرکشمیری نوجوانوں کے ماورائے عدالت شہید اوردوران حراست گمشدگیوںکا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی فوج جعلی مقابلوں میں نہتے کشمیریوں کے شہید کے بعد انکی میتیں بھی ورثاکے حوالے نہیں کرتی۔ سری نگر میں بھارتی فوجیوں نے30 دسمبر 2020 کومزید 3 نوجوانوں کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں کے لواحقین نے کہا کہ ان کے بچے دہشت گر دنہیں بلکہ طالب علم تھے۔شہید ہونے والے نوجوان اطہر مشتاق کے والد مشتاق کا کہنا ہے کہ ان کو ایک پولیس عہدیدار نے بلایا اور سری نگر کے پولیس کنٹرول روم میں اپنے بیٹے کی لاش کی شناخت کرنے کو کہا جہاں مارے جانے والے نوجوانوں کی تمام لاشوں کو شناخت کے لئے رکھا گیا ہے۔جب مشتاق اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اپنے بیٹے کی شناخت کے لئے پولیس کنٹرول روم پہنچا تو ماے جانے والے زبیر اور اعجاز کے اہل خانہ کے ساتھ ایک بہت بڑا مجمع پہلے ہی جمع ہوگیا تھا ۔ تینوں نوجوانوں کی لاشیں لواحقین کو نہیں دی گئیں بلکہ نا معلوم مقام پر دفن کیا گیا۔بھارتی فوج نے جنوبی کشمیر کے کئی دیہات کا محاصرہ کر لیا ہے۔ دوران محاصرہ گھر گھر تلاشی کے دوران بچوں، بڑوں اور خواتین کو ہراساں کیا گیا ہے۔ سخت سردی کے باوجود شہریوں کو کئی گھنٹوں تک محصور رکھا گیا۔ بھارتی فوج کی 9آر آر، 18بٹالین سی آر پی ایف اور پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ نے پونیوہ کولگام کا محاصرہ کیا۔ گھر گھر تلاشیاں لیں۔یمرچھ کولگام نامی گائوں میں بھی کریک ڈائون کیا گیا۔گائوں کی ناکہ بندی کے دوران گھر گھر تلاشی لی گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد نئی میڈیا پالیسی کے تحت48 اخبارات کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔48 اخبارات کو میڈیا لسٹ سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے دس اخبارات کے لیے اشتہارات کی فراہمی کا عمل مکمل طور پر روک دیا گیا ہے جبکہ آٹھ اخباروں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔کے پی آئی کے مطابق جوائنٹ ڈائریکٹر انفارمیشن حارث ہنڈونے دعوی کیا کہ یہ اخبارات حکومتی پالیسی کی پیروی نہیں کر رہے ہیں۔ پابندی کا شکار اخباروں میں جموں کے30 اخبار شامل ہیں۔5 اگست ، 2019 کو مقبوضہ کشمیر ٰ خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ریاست میں تمام اخبارات کی اشاعت معطل ہو گئی تھی کئی ماہ بعد سخت سنسر شپ پابندیوں میں اشاعت بحال ہوئی تھی۔ گریٹرر کشمیر اور کشمیر ریڈر کو کئی مہینوں تک سرکاری ایڈورٹائزنگ عمل سے دور رکھا گیا یہ دونوں اخبار جموں وکشمیر میں بھارتی پالیسیوں کے بڑے ناقد تھے۔ 2016 میں ، کشمیر ریڈر پر تین ماہ کے لئے اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ کشمیر میں جون2020 سے جاری نئی میڈیا پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی عالمی رپورٹ 2021 میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے جموں وکشمیر میں ناقدین اور صحافیوں کو بھی آزادانہ کام کرنے سے روک دیا۔جون 2020 میںحکومت نے جموں و کشمیر میں ایک نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت حکام کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ جعلی خبروں یا بھارت دشمن سرگرمیوں کے الزام میں صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت نے نقادوں ، صحافیوں ، اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بھی پابندی عائد کردی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور پولیس کے اہلکار ترقی کے لالچ میں نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے لگے۔ قابض فورسز نے میر واعظ کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بی جے بی حکومت سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ گوکرناگ کے رہائشی گجر بکروال قبیلے کے تین نوجوانوں کو بھارتی پولیس نے اغوا کرنے کے بعد ان میں سے دو نوجوانوں شوکت اور ریاض کو قتل کرنے کے بعدان کی لاشیں ویرانے میں پھینک دیں۔ امریکی اخبار ڈیلی بیسٹ نے اپنی تازہ اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں ہندوستانی حکومت غیرقانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے قانون کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ بھارتی فوج بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا تی ہے۔ کشمیری نوجوانوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں انعام کے لالچ میں شہید کیا جارہا ہے۔جنوری 1989 سے اب تک بھارتی فوج نے 95ہزار723 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے اور ان میں سے 7ہزار155 افراد کوجعلی مقابلوں میں یا حراست کے دوران شہید کیاگیا۔ غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموںوکشمیر میںماورائے عدالت شہید اور جعلی مقابلوںکے واقعات وقتا فوقتا پیش آتے رہتے ہیں جبکہ سرینگر اور شوپیاں جعلی مقابلے مقبوضہ علاقے میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی تازہ مثالیں ہیں۔ بھارتی فوج 2000 کے پتھربل اور 2010 کے مڑھل جعلی مقابلے سمیت متعددجعلی مقابلوں میں ملوث ہے۔امریکی اخبار نے بھارتی فوج کے ہاتھوں شوپیاں اور سری نگر کے جعلی مقابلوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 18 جولائی ، 2020 کو سری نگر سے 41 میل دور واقع شوپیاں قصبے میں ہندوستانی فوجیوں نے راجوری سے 3 مزدوروں کو ہلاک کیا تھا۔ تینوں افراد کی ہلاکتوں کی تحقیقات کے دوران جموں و کشمیر پولیس نے نوجوانوں کے ڈی این اے سیمپل بھی لیے جن سے ثابت ہوا کہ یہ عسکریت پسند نہیں عام بے گناہ شہری تھے۔ اس کیس میں فوج کے ایک سینئر افسر کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس چارج شیٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم آرمی افسر نے 27ہزار،242 ڈالرکا انعام کے لیے ہلاکتوں کی سازش کی تھی۔ اخبار کے مطابق کشمیریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طویل عرصے سے شکایت ہے کہ بھارتی فوج بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے انہیں شہید کیا جارہا ہے۔ انہیں دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے تاکہ فوجیوں کو انعام مل سکے۔ بھارتی فوج کے یہ اقدامات صرف مسلم اکثریتی علاقے میں ہورہے ہیں۔ فوجیوں نے گزشتہ سال دسمبر میں سرینگر کے علاقے لاوے پورہ میں ایک اورجعلی مقابلے میں مزید تین کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا تھا۔