کالم

کشمیر پر بھارتی بیانیہ مسترد

اگست 2019 کو خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مودی حکومت دکھانا چاہتی ہے کہ سب اچھا ہے لیکن غیر اکثر اہم ایونٹ پر تمام دکانیں اور کاروبار احتجاجی طور پر مکمل بندہو جاتی ہیں۔ مودی حکومت جو مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے وہ اسے حاصل نہیں ہو پارہا، حقیقت یہ ہے کہ کشمیری مودی بیانیہ کو ماننے کو تیار نہیںہیں۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کے لئے متعارف کروائے گئے قوانین اور فیصلے پر دنیا تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کا قیام خصوصی خود مختاری کی ضمانت پر عمل میں آیا تھا جہاں ہر نسل، زبان اور مذہبی شناخت کا احترام کیا جانا تھا۔ بھارت نے 5 اگست 2019 کو بغیر کسی مشاورت کے خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی اور مئی2020ءمیں نام نہاد ڈومیسائل قانون متعارف کروایا گیا، جس سے مقبوضہ علاقے کو دیا گیا تحفظ بھی ختم ہوگیا۔نئی دہلی حکومت کی جانب سے براہ راست حکومت کا تسلط اور خود مختاری ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی اب اپنی حکومت نہیں ہوگی اور وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی سازی یا قوانین میں ترمیم کا حق کھو چکے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے باہر دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ڈومیسائل دینے سے زبان، مذہب اور نسل کی بنیاد پر جغرافیائی تبدیلی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ مودی انتظامیہ سچ سننے کی روا دار نہیں ہے۔مقبوضہ کشمیر پر جابرانہ اور ہر لحاظ سے ناجائز قبضے کو کہیں سے پذیرائی نہیں مل رہی۔ وادی کی متنازعہ حیثیت کو دنیا تسلیم کرتی ہے،وہ جانتی ہے کہ یہ مسئلہ ابھی حل طلب ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) بھی مودی کوآئینہ دکھا تی رہتی ہے۔بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے تنظیم کا کہنا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت نے ہندو انتہا پسندوں کو اقلیتوں پر حملہ کرنے اور انہیں ہراساں کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس کہتی ہیں کہ بھارت کے سرکاری اقدامات اور پالیسیاں مسلمانوں کو منظم طور پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے والی پالیسیاں ہیں۔ ایچ آر ڈبلیو نے یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ بھارت میں ماہرین تعلیم اوردیگر ناقدین کو نشانہ بنانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، کمزوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اقلیتوں کے تحفظ کی پابند ہوتی ہیں لیکن مودی حکومت میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک کو جائز سمجھا جاتا۔ دنیا بھی اسی بیانیہ کو قابل قبول سمجھ رہی ہے جس پر پاکستان کاربند ہے کہ مظلوم کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کب تک اس حقیقت کو ماننے سے انکاری رہتا ہے ۔
اب ذکر ہو جائے کنن پوش پورہ اجتماعی زیادتی کے سانحہ کی جسے34سال مکمل ہوگئے ،اتنے سال گزرنے کے باوجودکنن پوش پورہ کے مجرمان بھارتی ریاستی سرپرستی میں آزاد ہیں۔یہ سانحہ23 فروری1991 کو پیش آیا تھا،جس میںبھارتی فوج نے ضلع کپواڑہ کے گاو¿ں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد بے گناہ کشمیری خواتین کےساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی ، اجتماعی زیادتیاں آزادی پسندوں کی طرف سے بھارتی فوج پر فائرنگ کے جواب میں انتقامانہ کارروائیوں کے طور پر کی گئیں۔ 17مارچ 1991 کو چیف جسٹس مقبوضہ جموں و کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف کیا اور 15 سے 21 مارچ1991 کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہو ئی۔ 1992 میں امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی شائع کردہ رپورٹ میں بھی کہا گیا تھا کہ کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کے خلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں، مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت انصاف کے حصول کےلئے کنن پوش پورہ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جسے بھارتی حکومت نے جبری ختم کر دیا۔اس پہ ظلم یہ کہ بھارتی حکومت نے سانحہ کو پروپیگنڈہ قرار دے کر بھارتی فوج کو بری الزمہ قرار دے دیا تھا جبکہ بھارتی فوج نے سانحے کو چھپانے کی خاطر پولیس حکام کے متعدد بار تبادلے بھی کئے، اب تک عالمی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھارتی حکومت سے سانحہ کی تحقیقات کا کئی بار مطالبہ کر چکی ہیں لیکن آج تک انسانی تاریخ کے بدترین سانحے کے متاثرین کو انصاف نہ ملنا نام نہاد بھارتی انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہناہے کہ بھارتی فوجیوں کے خلاف کبھی کوئی شفاف انکوائری نہیں کی گئی بلکہ انہیں انسانیت کے کھلواڑ کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ تنظیموں نے کہا کہ خواتین کی عصمت دری میں ملوث کبھی کسی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی نہ ہی کسی کو ابھی تک سزا ہوئی، کنن پوشپورہ اجتماعی عصمت دری، شوپیاں میں عصمت دری اور دہرے قتل اور کٹھوعہ میں کمسن بچی سے زیادتی اور قتل جیسے واقعات بھارتی فورسز کے ظالمانہ چہرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ 1989 سے اب تک 11ہزار سے زائد عصمت دری اور اجتماعی زیادتیوں کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، کیا عالمی حقوق کی تنظیمیں اجتماعی زیادتی کے بد ترین سانحہ کو بغیر تحقیقات کے نظر انداز کر دیں گی؟ پاکستان میں خواتین کے حقوق کا پرچار کرنے والی نام نہاد تنظیمیں کنن پوش پورہ سانحے پر خاموش کیوں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے